قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے جھوٹوں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے (سورۂ آل عمران) جھوٹ تمام بُرائیوں کی جڑ ہے اور سچائی تمام بھلائیوں کی اصل ہے۔ جھوٹ بولنے سے انسان کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے جھوٹ بولنے سے عمر میں اور رزق میں کمی ہوتی ہے ۔ ان ارشاداتِ عالیہ پر صحابہ‘ تابعین‘ تبع تابعین ‘ ائمہ مجتہدین اور سلفِ صالحین نے صدق دلی سے عمل کیا ہے۔ چنانچہ پیران پیر حضرت سیدنا غوث الآعظم ؓ کی زبان مبارک سے زندگی کے ابتدائی دور سے لیکر آخر لمحات تک کلمئہ کذب جاری نہ ہوا۔ مکتب و مدرسہ میں مجلسِ احباب اقرباء میں محفل و عظ و تقریر ،میں ‘ عہد طفلی و عالم شباب اور بڑھاپے میں ہر جگہ اور ہر معاملہ میں سچ بولنا آپ کی فطرت میں شامل تھا۔ ایک مرتبہ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ عظمت و بزرگی کا مدار کس چیز پر ہے؟ آپ نے بلا تکلّف اور برجستہ جواب دیا کہ صدق گوئی اور راست بیانی پر ۔ چنا نچہ مؤرخین نے لکھا کہ سرکار غوث والدہ محترمہ نے چالیس(۴۰) دینار و دُعاـؤںکے ساتھ سفر کی اجازت مرحمت فرماتے ہوئے ہمیشہ سچ بولنے کی نصیحت فرمائی۔جیلان سے روانہ ہوتے ہوئے راستہ میں مقام ہمدان سے کچھ دور آگے پہنچ کر ساٹھ ڈاکوؤں نے قافلہ والوں کا سارا سامان اور مال تجارت لوٹ لیا۔اسی دوران میں ایک ڈاکونے آپؓکی طرف متوجہ ہوکر دریافت کیا تمھارے پاس کیا ہے ؟ آپؓ نے بلاخوف و خطر فرمایا میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ ڈاکونے آپؓکے بیان کو مذاق تصور کیا اور ہنس کر آگے بڑھ گیا جب سارے قافلہ کو لوٹ کر ڈاکوؤں نے مال و اسباب اپنے سردار کے سامنے جمع کیا تو اس نے معلوم کیا کہ قافلہ کا کوئی آدمی بچا تو نہیں ۔ اسکے جواب میں ایک ڈاکونے کہا اے میرے سردار آج تک تو قافلہ والوں کا ہم مذاق کرتے ہوئے ان کو لوٹ لیا کرتے تھے مگر آج ایسے قافلہ سے سابقہ پڑا جس میں ایک نوجوان ہے جوہم سے مذاق کررہا تھا اس کی بے سروسامانی پورے طور پر یقین دلارہی تھی کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے مگر رواداری میں میں نے جو اُس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو برجستہ وہ کہتا ہے کہ میرے پاس چالیس دینار ہے ۔ یہ کیفیت سن کر سردار خود ہی آپ کے پاس آیا اور اُس سے بھی یہی باتیں ہوئیں بل آخر اُس نے پوچھا کہ اچھا تو پھر وہ چالیس دینار کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا نیچے کپڑے میں سلے ہوئے ہے چنا نچہ صدری کھولی گئی تو دینار نظر آگئے۔ سراپا حیرت بن کر سردار نے سوالیہ لہجہ میں آپ ؓسے دریافت کیا کہ اس سچائی پر آپؓ کو کس نے جرأت دلائی؟ فرمایا والدہ نے مجھے رخصت کرتے ہوئے سچ بولنےکی ہدایت فرمائی تھی اور میں نے وعدہ کیا تھا ہرحال میں اُس کی پابندی کروںگا،میں نے جھوٹ بولنا اپنے وعدہ اور ماں کی نصیحت کے خلاف سمجھا اور سچ کو اختیار کیا ۔ آپ کا جواب سن کر بیساختہ سردار چیخ پڑا اور روتے ہوئے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے غوث اعظمؓ کا دستِ مبارک پکڑ کر کھنے لگا کہ تم اپنی والدہ سے وعدہ کی اس قدر پابندی و لحاظ کرتے ہو مگر افسوس ہمارا کیا حشر ہوگامیں تو ایک زمانہ سے خدائے بزرگ و برتر کی حکم عدولی وہ وعدہ خلافی اور اُس سے کھلی ہوئی بغاوت کر رہا ہوں ۔ اے مالکِ ارض و سماں تیری شان کریمی کے سہارے اب سرکشی و بغاوت اور تیری عہدشکنی سے باز آتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے سرکار غوث اعظمکے دستِ اقدس پر اُس نے توبہ کی اُس کے بعد اپنے ساتھیوں سے تم آزاد ہو جو چاہو کرو لیکن اب تمہاری رہگذر اور ہے اور میری راہ کوئی اور ہے ۔ ساتھیوں نے آبدیدہ ہوکر کہا ڈکیتی میں آپ ہم سب کے سردار تھے گناہ و معصیت میں جب ہم نے آپ کا ساتھ دیا تو کیا نیکوکاری اور خدا کی اطاعت و فرمابرداری میں آپ ہم کو اپنے سے جدا کردینگے؟ یہ کہتے ہوئے سب کے سب رونے لگے اور تمام لوٹا ہوا سامان و مالِ تجارت قافلہ والوں کو واپس کیا اور پوری جماعت نے سرکار غوث اعظمؓکے دست حق پر ست پر توبہ کی ۔ اس طرح سچائی کی کرشمہ سازی ایسی حیرت انگیز ثابت ہوئی کہ چالیس دینار کے ساتھ سارے قافلہ والوں کا مال محفوظ رہا ۔
یوں گویا ہوا آج مدتوں کا بھاگا ہوا سراپا معصیت و سرکشی میں ڈوبا ہوا ایک بندہ اپنے آقا و مالک حقیقی کے آستانۂ کرم تک پہنچ گیا ہے۔ اب میں سچے دل سے نافرمانیوں و گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہو اِس لئے اب نہ تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو اور نہ میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔