مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
عید الاضحی کی قربانی حضرت سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کی یادگارہے،واقعہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی قوم کی اصلاح میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی،شرک وکفرکی ظلمتوں سے نکال کر توحید کے اجالوں میں لانے کی مسلسل کوشش کی ،پرچم حق تھامے ،حق کی شمع روشن کرنے کی سعی بلیغ جاری رکھی تاکہ گم کردہ راہ ہدایت پائیں۔بہکے ہوئے قدم راہ ایمان پر جم جائیں،ہر وہ تدبیر اختیارکی جوشرک وکفرکی قباحت وشناعت کو واضح کرنے کیلئے کافی تھی لیکن ان کی قوم کفروشرک کی مسموم فضائوں سے نکلنے کیلئے تیارنہیں ہوئی ،سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کی صداقت کے روشن دلائل بھی ان کی قوم کی نگاہوں پر پڑے جہالت کے پردہ کو نہیں ہٹاسکے۔ بالآخروہ مایوس ہوکروہاں سے یہ کہتے ہوئے چل پڑے’’لو اب تو میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوں وہ میری رہبری ورہنمائی فرمائے گا‘‘ سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کو اپنی کوششیں رائیگاں ہوتی نظر آئیں ،دعوت و ارشاد کا مزید سلسلہ جاری رکھنا بے فائدہ نظر آیاتو اس مشرکانہ ماحول سے دورہوجانے ہی کو مناسب سمجھا ،چنانچہ اللہ سبحانہ کی یاد ،اسکے ذکر وفکراوراس کی عبادت وبندگی کویکسوئی کے ساتھ بجالانے کیلئے وہاں سے مصرپھر مصرسے ہوتے ہوئے ملک شام تشریف لے گئے وہاں اپنے رب سے فرزند صالح کی دعا کی جو قبول کرلی گئی ،وہی نورنظر جب شباب کی سرحدوں میں داخل ہونے لگے اوراپنے والد گرامی کے ساتھ دوڑدھوپ کے قابل ہوگئے ، جبکہ ضعیف والدین کی نگاہوں میں امید کے چراغ جل اٹھتے ہیں ،اولاد سے جو امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں ان کے پورے ہونے کی گھڑی آن پہنچتی ہے۔ویسے دنیا والے امید کی ایک نئی دنیا دل میں بسائے ہوئے آرزؤں اورتمنائوں کے خواب کی تعبیر پانے کی گھڑیوں کے انتظارمیں دن بتاتے ہیں لیکن انبیاء کرام علیہم السلام کی آرزؤں وتمناؤں کا ماحصل رضاء رب ہوتا ہے۔اللہ سبحانہ نے جب اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو ابتلاء وآزمائش کے کٹھن مراحل سے گزارا،اس امتحان وآزمائش کے صبرآزماحالات میں بھی ان کے پاء استقامت میں کبھی تزلزل نہیں آیا ،انکی نگاہیں ہمیشہ اپنے رحیم وکریم ،علیم وخبیر،مالک ومولی پر جمی رہیں۔آتش نمرودرضاء رب کے راستہ سے ان کو نہیں ہٹا سکی ،مادی نقطہ نظر سے غیر محفوظ،اسباب معاش سے یکسرخالی، بے آب گیاہ ریگستان میں اپنی بیوی اوراپنے ننھے فرزندارجمندکو حکم الہی کی تعمیل اوررضاء رب کی تحصیل میں چھوڑآنا جن کو دل وجان سے منظورہوا جس پر وہ مطمئن اورپر سکون رہے۔ایسے پاکیزہ قلب سلیم کے مالک یعنی ایسا قلب جواللہ سبحانہ کے سواہر دوسرے کے محبت اورتعلق سے محفوظ ومامون ہو،ظاہر ہے کب وہ امتحان وآزمائش کے گھڑیوں میں دلشکن وکبیدہ خاطر ہوتے ،وہ تو رضاء رب کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار نظر آتے ہیں،مشکل سے مشکل امتحان آتے گئے لیکن اس ذات قدسی صفات نے جس عزم وحوصلہ کا ایمان ویقین کے ساتھ راہ امتحان میں ثبات قدم کا اورہر ہر منزل میں تسلیم ورضاکا ثبوت پیش کیا وہ رہتی دنیا تک کیلئے انسانیت کی تاریخ کا ایک روشن باب بنا رہیگا سچے دل سے رضاء رب کے متلاشی انسانیت کوروشنی دکھاتا رہیگا۔
الغرض اس محبوب بندے کیلئے ایک اور نئے امتحان کی گھڑی سامنے آگئی ۔ایک رات خواب دیکھا کہ وہ اپنے فرزند جلیل کو ذبح کررہے ہیں چونکہ انبیاء کرام علیہ السلام کے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے خواب کی تفصیل اپنے نورنظر کے سامنے رکھی ،وہ بھی رضاء الہی کے آگے سرنگوں اس عظیم فضل و شرف کے پانے کیلئے تیارہوگئے’’فانظر ماذا تری‘‘کے جواب میں جو جواب فرزند جلیل اسماعیل علیہ السلام کے زبان سے نکلا ’’یا ابت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللّٰہ من الصابرین‘‘ ائے میرے ابا جان ! جو حکم آپ کو دیا گیا ہے وہ کر گزرئیے اللہ سبحانہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے ۔بندگی وعبدیت کے تقاضے وہ بھی کمال شان کے ساتھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کے اللہ سبحانہ کی مشیت وچاہت اس میں شامل نہ ہواس لئے اس نازک امتحان میں سرخ روئی اورسرفرازی کو اسماعیل علیہ السلام نے اپنی ہمت سے منسوب نہیں کیا بلکہ ان شاء اللہ کے کلمات کے ساتھ جوڑکر بندگی کے تقاضوں کے تکمیل کو معراج کی منزل تک پہنچایا۔باپ اوربیٹا جو خاصان خدا میں اعلی مقام ومرتبت کے حامل تھے حکم ربانی کے تعمیل میں چل پڑے،جان۔ جان آفریں کے سپر دکرنا کوئی آسان کام نہیں، اس منزل کو تو وہی سرکرسکتے ہیں جو جمال محبوب حق کی رعنائیوں میں گم ،شوق محبت کی راہ پر گامزن، دیدارحق کی تمنا وتڑپ کو منزل مقصود بنالیتے ہیں۔ایک طرف وہ حسین نوجوان ہے جس کوزندگی کی پر بہاررونقیں زندہ رہنے کی دعوت دے رہی ہیں،حسن وجوانی کا پیکرخوبی ورعنائی کا مظہروہ بھی جوضعیف ماں باپ کے دل کی ٹھنڈک ، آنکھوں کا نورجوزندگی کی سوبہاریں دیکھنے کے بعدان کو فضل حق سے نصیب ہواتھا۔ تمناؤں ، آرزوں، امیدوں وامنگوںسے بھری دنیا کو تج کراپنے بزرگ والد کا ہاتھ تھامے قربان گاہ کی طرف رواں دواں تھا،قرب حق کی تلاش میں رضاء حق کے راستہ پر چلنے والوں کو شیطان ٹھنڈے پیٹ کب برداشت کرسکتا،شیطان کو سخت صدمہ اس بات کا تھا کہ ابراہیم خلیل (علیہ السلام)کبھی اس کے ہاتھ ہی نہیں لگے،جب بھی حق نے ان کو کسی امتحان کی منزل میں اتاراوہ کامیاب ہوگئے ، وہ اس منظر کو دیکھ کر بے چین وبے قرارہوگیا کہ باپ بیٹے دونوں حق کی منزل پانے میں کامیابی کی شاہراہ پر چل پڑے ہیں۔ اس نے پورا زورصرف کرکے چاہا کہ ان کو کامیابی کی منزل سے دورکیا جائے ،ماں جورقیق القلب ہوتی ہے اولاد کی چاہت ومحبت سے جسکے دل کی دنیا آباد رہتی ہے چلواس پر حربہ آزمالو۔اس لئے اس نے پہلا حربہ بی بی ہاجرہ علیہا السلام پر آزمایا ،ان کے دل کی دنیا کو تہہ وبالا کرنے کیلئے نورنظراسماعیل (علیہ السلام )کی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا اورتشویش دلائی کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے دوڑو بھاگواوراپنے نورنظرکو فورا اپنی باہوں میں سمیٹواورسینہ سے چمٹالوورنہ کچھ لمحے گزرنے نہیں پائیںگے کہ وہ زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے گا اور تمہارے لئے رونے دھونے اورنہ بھلانے والے غم کو سینہ سے لگاکر زندگی کے دن بتانے کے سواکوئی چارہ نہیں رہ جائے گا ۔بی بی ہاجرہ علیہا السلام کو بالکل بھی یقین نہیں تھا کہ بیٹا باپ کے ہاتھوں ذبح کردیا جائیگا،پھر وہ باپ جواپنے بیٹے سے پیارکرتاہودل وجان سے جس کو چاہتاہووہ کیسے اپنے چہتیے کے حلقوم پر چھری چلاسکتاہے؟شیطان کو یہی کچھ جواب دیکر چپ کرانا چاہا لیکن وہ کب ماننے والا تھا ،وہ تو اللہ کی محبوب بندی بی بی ہاجرہ علیہا السلام کواپنے کید ومکرکی جال میں پھانسنے کا مصمم ارادہ کرکے راہ حق سے ان کو ہٹانے کی ٹھان کر آیا تھاوہ کب ٹلنے والا تھا۔ اس لئے ہمت نہیں ہاری اوران کے خیال وگمان میں ان کے نورنظرکی جلوہ فرمائی کو تازہ بتازہ ہوتی دیکھ کر اس نے ایک آخری حربہ بھی استعمال کرلیا اورانکے دل میں اس خیال کوجمانے کیلئے کوشاں رہا کہ وہ ضروراپنے بیٹے کو ذبح کرکے رہیں گے کیونکہ ان کے رب نے ان کو اسکا حکم دیدیا ہے، بی بی ہاجرہ علیہا السلام جواپنے مالک ومولی کی محبت کی اسیر تھیں اوردیدارحق کی تمناء دلپذیرجن کی متاع حیات بن گئی تھی ان کو تو اپنے مالک ومولی کے حکم کی بات جان کر بڑی ٹھنڈک حاصل ہوگئی۔دل ودماغ کی دنیا میں کچھ دیر پہلے تک جو اتھل پتھل مچی تھی وہ یکلخت کافورہوگئی ،کامیابی کا سرا ہاتھ لگ گیا ،مسرت وخوشی سے بے ساختہ کہہ اٹھیںرب کریم کی یہی مرضی ہے تو مجھے کیا اعتراض ہوسکتاہے میں تو اس کے آگے سرنگوں اوراسکے ہر حکم اوراسکی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کرچکی ہوں۔ ناکامی شیطان کا مقدرتھی اسلئے اسکی کوششوں پرپانی پھرگیا وہ سرپیٹتا خاک اڑاتا ناکام ونامراد واپس لوٹ گیا۔
(سلسلہ سپلیمنٹ کے صفحہ2 پر )
ماں کی ممتا کو جھنجھوڑنے اورراہ حق سے بہکانے کی کوشش میں منہ کی کھانے کے باوجود پھر بھی اس کے عزائم وارادے پسپا نہیں ہوئے، دوڑے دوڑے نوجوان اسماعیل (علیہ السلام)کے پاس پہنچا اوران کو راہ حق سے ہٹانے کی بھر پورکوشش کے ساتھ اپنے داؤ چلانے لگا ۔ہر وہ حربہ آزمایا جو اس کے خیال میں ان کو شکست سے دوچار کرسکتا تھا،انکے آگے زندگی کی اہمیت جتائی ،جوانی اوراسکے کیف وسرورکی رنگینیوں اورلطف لذت کی سحرآفرینیوں سے دل ودماغ میں ہلچل مچانے کی پئے درپئے کوشش کی ،لیکن اللہ کی مدد جن کے شامل حال ہو وہ کب اسکے دھوکوں میں آسکتے تھے،دنیا کی لذتوں اوراسکی پر بہاررونقوں کو جوسراب سے زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں ان کو دنیا اپنے طرف کب متوجہ کرسکی ہے جو اسماعیل(علیہ السلام) کو اپنے طرف متوجہ کرسکتی۔ وہی ہوا جس کا یقین تھا، شیطان کو یہاں بھی اپنی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاپھربھی اسکے عزائم میںتزلزل نہیں آیا ،ہمت تو ٹوٹ چکی تھی پھربھی اپنے کاز سے بازآنے کو اپنی ناکامی جانتے ہوئے ضعیف والد کو اپنے شکنجہ میں کسنے کی ٹھان لی ،حق کی رضا کی طلب میں اللہ کا نام لیکر آگے بڑھنے والے قدموں کویہ جان کر کہ وہ ضعیف العمری کی وجہ کمزورہوگئے ہیں لڑکھڑانا چاہا،لیکن وہ قدم جو عمر کی وجہ کمزورہوگئے ہوں لیکن ان کی روحانی قوت عمرکے آگے بڑھنے کے ساتھ اورقوی ہوگئی ہو اسکی طاقت وقوت کا اسکو کہاں اندازہ ،روحانی طورپر قوت وطاقت رکھنے والوں کو وہ کب زیر کرسکا ،وہ (شیطان)تو مادیت میں کھوکر مادی نقطہ ء نظر کو سہارا بناکر آگے بڑھنے کا شوق وہنررکھتاتھااس نے سمجھا کہ بوڑھے باپ پر محنت رائیگاں نہیں جائیگی یہاں ضرورپانسہ پلٹ جائے گا۔اجی وہ حضرت جو رب کی رضاکے راستہ پر چل پڑے ہو کیا یہی ایک راستہ رہ گیا ہے حق کو راضی کرنے کا،کیوں اپنے بیٹے کی جان کے دشمن بن گئے ہو ؟سوچوکیا بڑھاپے کے سہارے کو یوں ضائع کیا جاتاہے؟اولاد کو وہ بھی ضعیفی میںاللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربان کردوگے تو پھرتمہاری اگلی نسل کا کیا ہوگا؟کون تمہارے بعدتمہارے نام اورکام کاچراغ روشن رکھ سکے گا ؟کیا خواب کی باتوں پر اس طرح یقین کیا جاتا ہے، اللہ کو منظورہوتا تو وہ ضرور جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے پاس حکم بھیجتا؟اللہ کی رضا چاہتے ہوتو ہزاروں ہزاراوربھی راستے ہیں جو اختیارکئے جاسکتے ہیں جوذوق طلب کی تسکین کا سامان کرسکتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام اللہ کے محبوب اورخلیل کب شیطان کے جھانسے میں آسکتے تھے، راہ حق میں ایمان ویقین پر استقامت رضاء رب کی طلب میں صداقت کی وجہ جن کو ’’الا عبادی الصالحین‘‘صالحین کے زمرے میں حق سبحانہ نے جن کو صف اول میں جگہ دی ہو شیطان مردود کا داؤان پر کب چل سکتا تھا ،نورحق کی روشنی نے ان کوشیطان کی کارستانیوںسے آگاہ کردیا۔زمین سے پتھراٹھائے اوراس کو مارااورآپ علیہ السلام تین مرتبہ اس پر اللہ کا نام لیکر اوراسکی بڑائی بیان کرکے پتھر پھینکے،ظاہر ہے پتھر سے مار ضرورپڑتے ہیں لیکن اللہ کا نام لیکراوراسکی بڑائی وکبریائی بیان کرتے ہوئے جو پتھر پھینکے گئے تھے ان کی ضرب کی شدت کا کوئی کیا اندازہ کرسکتا ہے۔ایرے غیرے کو چنگل میں پھانس لینا شیطان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوسکتا ہے لیکن اللہ سبحانہ کے خاص اورمخلص بندوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے شیطان کو ہزار بار سوچنا پڑتا ہے کیونکہ مخلص بندوں پر آزمائے گئے داؤ کے نتیجہ میں جو منہ کی کھانی پڑتی ہے اس تکلیف کا اسکو شدید احساس ہوتاہے لیکن اپنی فطرت سے مجبورکامیابی کی آس میں قدم آگے بڑھاتا ہے لیکن ہر بار ناکامی اسکے گلے کا ہاربن جاتی ہے اوریہ راستہ اسکے حق میں موت کی کھائی سے بھی زیادہ شدید ترہوتا ہے۔
الغرض اللہ کے دومحبوب بندے ابراہیم واسماعیل علیہما السلام منزل مقصود پہنچتے ہیں ،تعمیل حکم سے پہلے محبوب فرزندنے اپنے والد بزرگوارکو یہ مشورہ دیا اے میرے پیارے ابا جان میرے ہاتھ پیر باندھ دیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ بے خبری کی حالت میں میرے ہاتھ پیرحرکت کرجائیں اورمیرے خون کے چھینٹ سے آپ دامن سرخ ہوجائے،مجھے منہ کے بل زمین پر لٹا دیجئے میرے چہرہ کی معصومیت کہیں محبت پدری کو بیدارنہ کردے ،اس مشورہ پر پدربزرگوارنے عمل کیا جب ایک بزرگ اورمحبوب پدرنے اپنے چہیتے فرزندکے حلقوم پر چھری چلانی شروع کی تو عالم بالا میں ہلچل مچ گئی ہوگی ،زمین وآسمان میں ایک کہرام مچ گیا ہوگا،اللہ سبحانہ کوتو فقط امتحان مقصود تھا اسماعیل کو ذبح کرنا اسے کب منظورتھا ،غیب سے ندا آگئی :ونادیناہ ان یا ابراہیم‘‘اے میرے پیارے خلیل اب بس بھی کیجئے،آزمائش کی گھڑیوں میں رضا ء رب کی طلب میں جواعلی کردار آپ نے پیش کیا ہے وہ ہمارے ہاں مقبول ہے ۔قد صدقت الرء یا انا کذالک نجزی المحسنین ’’آپ نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کا بدلہ دیتے ہیں ،بے شک یہ بڑی اورکھلی ہوئی آزمائش تھی اورہم نے فدیہ ایک عظیم ذبیحہ دیکر اسے بچالیا اورہم نے آنے والوں کیلئے ان کا ذکر خیر چھوڑا ہے،ابراہیم پر سلام ہواسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں،بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں‘‘(الصّفٰت :۱۰۴؍۱۱۱)
اس واقعہ میں امت مسلمہ کیلئے ایک عظیم روحانی پیغام ہے جس سے روشنی حاصل کرکے یہ امت دنیا میں منصب امامت پر فائز ہوسکتی ہے اورآخرت کی کامیابی اسکے حصے میں آسکتی ہے۔
اسلام کے معنی’’گردن نہادن‘‘یعنی مرضیات رب کے آگے بصمیم قلب پوری رضا ورغبت کے ساتھ سرتسلیم خم کرنے کے ہیں،عبدیت وبندگی کا کمال یہ ہے کہ’’اسلمت لرب العالمین ‘‘کی صدا جسم کے ہر ہر عضو بلکہ ہر ہر روئیں روئیں سے سنائی دیجا رہی ہو، اپنی راحت وتکلیف ،اپنا نفع ونقصان ،اپنی رائے وخواہش ،اپنی تمنا اورآرزوسب کے سب رضاء رب میں ضم ہو گئے ہوں ۔قلب کی گہرائیوں سے بے ساختہ بندہ کی زبان سے یہ کلمات نکل جاری ہوں’’بے شک میں نے اپنا چہرہ پوری یکسوئی کے ساتھ اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اورزمینوں کو پیدافرمایا ہے اورمیں اسکی ذات وصفات میں کسی کو شریک ٹھہرانے والا نہیں ہوں‘‘(الانعام:۸۰)