ریاست تلنگانہ میں آنے والے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات تک سیاسی تبدیلیوں کا رجحان تیز ہوجائے گا۔ قومی پارٹی کی حیثیت سے کانگریس بُری طرح کمزور ہونے کے بعد اس سے وابستہ رہنے والے قائدین بھی پارٹی کی کمزور ساکھ سے پریشان ہوکر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس میں شامل ہورہے ہیں۔ ٹی آر ایس بھی بذات خود اب پہلے کی طرح مضبوط و مستحکم دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے باوجود اس کی جانب دیگر پارٹیوں کے قائدین کا جھکاؤ بڑھتا جارہا ہے تو یہ آئندہ الیکشن تک اپنے سیاسی وزن کو برقرار رکھنے کی فکر کرنے والے قائدین کے لئے ایک اچھا پلیٹ فارم معلوم ہورہا ہے۔ اگر ٹی آر ایس واقعی کانگریس کے قائدین یا کسی اور پارٹی کے لیڈر کے لئے پُرکشش مقام کی حیثیت اختیار کرلی ہے تو اس سے ٹی آر ایس کے اصل محنتی قائدین کو خطرہ لاحق ہوگا۔ ٹی آر ایس قائدین کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں مضبوط ہیں اور ان کی پارٹی آئندہ حکومت میں برقرار رہے گی۔ ٹی آر ایس سربراہ چندرشیکھر راؤ ریاست کے چیف منسٹر کی حیثیت سے مزید پانچ سال خدمت کریں گے۔ سیاسی استحکام ہی ہر پارٹی کی بنیادی مضبوطی ہوتی ہے جہاں استحکام نظر نہیں آتا وہاں ناراضگیاں، بے چینی اور بے صبری کے مظاہرے ہوتے ہیں۔ تلنگانہ کانگریس بھی اس کیفیت کا شکار ہے۔ پارٹی قائدین کو اپنے مستقبل کی فکر ہے۔ یہ لوگ اقتدار کی راہداریوں سے محرومی کا غم زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتے۔ گزشتہ چند روز سے کانگریس کو خیرباد کہنے والے پارٹی قائدین اور ورکرس کے بارے میں سیاسی حلقوں میں جو سرگوشیاں ہورہی تھیں اب ان میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ سابق وزیر اور کانگریس کے سینئر لیڈر دانم ناگیندر کا پارٹی سے استعفیٰ اور پارٹی پر لگائے گئے الزامات غور طلب ہیں۔ ناگیندر ایک سرگرم کانگریس لیڈر تھے۔ اب وہ ٹی آر ایس میں جانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس اب پہلے کی طرح نہیں رہی کیوں کہ پارٹی نے پسماندہ طبقات کو نظرانداز کردیا ہے جبکہ یہی پسماندہ طبقات، دلت اور اقلیتیں ان تمام برسوں میں پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے۔ پارٹی کا اب ایس سی، ایس ٹیز اور مسلمانوں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور یہ پارٹی بنیادی سطح پر اپنے کیڈر سے بھی محروم ہورہی ہے۔ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ کے لئے انھیں امیدوار بنانے کے امکان نے سیاسی صورتحال کو تبدیل کردیا ہے۔ ٹی آر ایس بھی اپنے اطراف مضبوط قائدین کا حصار بنانا چاہتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا دل بدلی کے عادی قائدین جب ٹی آر ایس کا سہارا حاصل کریں گے تو اس سے پارٹی کا اصل کیڈر ناراض ہوجائے تو پارٹی قیادت کو مسائل پیدا ہوں گے۔ دیانتدار اور وفادار ٹی آر ایس قائدین و ورکرس کو جب ان کی محنت کا صلہ نہیں ملے گا تو وہ ناراض ہوجائیں گے۔ ایسے میں پارٹی قیادت کو نئے وارد قائدین سے پریشانی لاحق ہوگی۔ تلنگانہ میں بظاہر ٹی آر ایس کا ایک مضبوط پلیٹ فارم ہے جبکہ آندھراپردیش کی تقسیم سے قبل یہ تنقیدیں کی جاتی تھیں کہ تلنگانہ قائدین میں حکمرانی کی صلاحیتیں نہیں ہیں۔ چیف منسٹر کے سی آر اپنے ناقدین کا جواب خاموش رہ کر دیا۔ ٹی آر ایس قائدین کو اپنی پارٹی کی حکمرانی اور کارکردگی پر ناز اس لئے ہے کہ ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کی برقراری میں یہ ریاست ملک میں سرفہرست بتائی جارہی ہے۔ یہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹی آر ایس نے گزشتہ چار سال کے دوران 426 اسکیمات متعارف کروائے۔ ریاست میں عوامی بہبود کے کاموں کی انجام دہی میں حکومت نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ سارے ملک میں معاشی پیداوار اور تعلیم کے شعبہ میں ریاست کو اونچا مقام ملنے کا ادعا بھی اپنی جگہ جواب طلب ہے۔ ان تمام ادعا جات کے درمیان اس تلخ حقیقت کو عوام فراموش نہیں کریں گے کہ ٹی آر ایس نے اسکیمات کے اعلان تو بہت کئے ہیں مگر انھیں پورا کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تازہ واقعہ میں اجمیر شریف میں زائرین تلنگانہ کے لئے رباط کے قیام کی تشہیر کی گئی لیکن عین موقع پر ہندوتوا کے چند کارکنوں کی دھمکی کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اجمیر میں تلنگانہ رباط کے سنگ بنیاد کا پروگرام منسوخ کردیا گیا۔ اس طرح ایک مقبول عام خود ساختہ طاقتور پارٹی کا سربراہ اپنے اعلان و ادعا جات کے درمیان کمزور دکھائی دے تو آئندہ ریاست میں کسی تیسرے سیاسی طاقت کا غلبہ بڑھانے میں اہم رول ادا کیا جائے گا یا معاونت کی جاسکتی ہے اسے سیکولر مکھوٹے کے اندر خفیہ ہندوتوا کہا جائے تو کیا حرج ہے؟
نوٹ بندی، سب سے بڑی معاشی غلطی
وزیراعظم نریندر مودی کے چیف معاشی مشیر کی حیثیت سے خدمت انجام دینے کے بعد اروند سبرامنیم کے استعفیٰ نے ہندوستانی معیشت کی تاریک تصویر سامنے آنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ بعض ماہرین نے نوٹ بندی کو سب سے بڑی معاشی غلطی قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ اروند سبرامنیم سے مشورہ کے بغیر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد جی ایس ٹی کا فیصلہ بھی شائد ان کے استعفیٰ کا موجب بن گیا۔ سیاسی کامیابی کا مظاہرہ کرنے کی دوڑ میں بی جے پی حکومت نے معاشی ناکامیوں کا ملبہ حکومت کے اندر ماہرین معاشیات پر ڈالنے کی کوشش کی۔ مودی حکومت میں ہونے والی معاشی بدانتظامی نے اروند سبرامنیم کو اپنی راہ لینے کی ترغیب دی ہے تو پھر ملک کے اندر معاشی اصلحات لانے کے نام پر معاشی انارکی پیدا کردی گئی ہے۔ اروند سبرامنیم کے استعفیٰ سے قبل نیتی آیوگ کے اروند پنگریا اور آر بی آئی گورنر رگھورام راجن نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ سبرامنیم دوسرے اہم معاشی پالیسی مشیر ہیں جنھوں نے درمیان میں ہی یہ عہدہ چھوڑ کر امریکہ چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے ان کے استعفیٰ کو ڈوبتے جہاز سے بچ نکلنا ہی عقلمندی سے تعبیر کیا ہے کیوں کہ آر ایس ایس کے نہ دکھائی دینے والے ہاتھوں نے ملک کی معیشت کو ایک سخت چٹان سے ٹکرادیا ہے۔ اس کے بعد معاشی کشتی کا ڈوب جانا یقینی ہے۔ مودی حکومت نے اب تک عوام کے سامنے معیشت کی اچھی خبریں ہی پہونچائی ہیں جبکہ اندرونی طور پر پائی جانے والی ابتری کا پتہ سبرامنیم کے استعفیٰ سے مل جاتا ہے۔