سیاسی جاسوسی

قانون کا نہیں ہے اگر خوف نہ سہی
اخلاق کے جو آپ کے دعوے تھے کیا ہوئے
سیاسی جاسوسی
کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی ان دنوں چھٹیاں منا رہے ہیں۔ تاہم وہ کس مقام پر ہیں اس کا کسی کو علم نہیں ہے ۔ وہ کسی نا معلوم مقام پر فرصت کے اوقات گذار رہے ہیں اور یہ آثار و قرائن واضح ہوتے جا رہے ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں راہول گاندھی کو کانگریس کی صدارت سونپی جاسکتی ہے ۔ راہول گاندھی کی تعطیلات کے مسئلہ پر جہاں مختلف گوشوں اور خاص طور پر میڈیا میں کئی طرح کی قیاس آرائیاں کی گئی تھیں۔ تاہم جب چھٹیوں میں توسیع کی گئی تو شائد حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینی پڑی اور ان کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے کا عمل شروع ہوگیا ۔ دہلی پولیس نے راہول گاندھی کے دفتر اور ان کی قیامگاہ سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں ۔ یہ معلوم کیا جانے لگا کہ ان کے بالوں کا رنگ کیا ہے ۔ ان کی آنکھوں کا رنگ کیا ہے ۔ وہ جوتے کس رنگ کے پہنتے ہیں۔ ان سے ملنے جلنے والوں کی رہائش کہاں ہیں اور ان کے فون نمبرات کیا ہیں۔ کانگریس پارٹی کو راہول گاندھی کے تعلق سے اس طرح کی معلومات حاصل کئے جانے پر شدید اعتراض ہے اور اس نے اسے سیاسی جاسوسی کا نام دیا ہے ۔ حکومت اپنے طور پر خود کو اس سارے مسئلہ سے الگ رکھنا چاہتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ معمول کی سکیوریٹی کا حصہ ہو اور اس کا جواب دہلی پولیس کو دینا چاہئے ۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ معمول کی سکیوریٹی کا حصہ ہے اور اس کے کچھ دوسرے عزائم نہیں ہیں۔ پولیس یہ بھی کہتی ہے کہ اس نے دوسرے سیاسی قائدین ویرپا موئیلی ‘ ایل کے اڈوانی اور چندر شیکھر کے تعلق سے بھی معلومات حاصل کی تھیں۔ کانگریس پارٹی پولیس کی اس وضاحت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ مسئلہ کو پارلیمنٹ میں موضوع بحث بنائیگی اور اسے وزیر داخلہ یا وزیر اعظم سے کم کسی کی وضاحت قبول نہیں ہے ۔ کانگریس نے اس مسئلہ کو وسیع انداز میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ جاسوسی کے الزامات کے تعلق سے اس کے پاس مزید اطلاعات ہیں جنہیں مناسب وقت پر میڈیا کے سامنے پیش کیا جائیگا ۔ جب پیر کو پارلیمنٹ اجلاس کا آغاز ہوگا تب اس مسئلہ پر ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوسکتی ہے ۔
کانگریس کے الزامات یا دہلی پولیس کی وضاحت سے قطع نظر ملک میں سیاسی جاسوسی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آئے ہیں۔ جب گجرات میں نریندر مودی چیف منسٹر تھے اس وقت بھی سیاسی مخالفین اور ججس و صحافیوں کے فون بھی ٹیپ کئے جانے کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ ایک خاتون کی نگرانی کے واقعہ نے بھی سارے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی تھی ۔ سابق میں کانگریس کے دور حکومت میں بھی اس طرح کے الزامات اکثر و بیشتر عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ سیاسی جاسوسی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی جڑیں قدیم ہیں۔ حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کے تعلق سے متفکر ضرور رہتی ہیں لیکن اب جس انداز سے راہول سے متعلق سوالات کئے گئے تھے وہ مضحکہ خیز کہے جاسکتے ہیں ۔ یہ استدلال بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ یہ کوئی معمول کی سکیوریٹی کا حصہ تھا ۔ راہول گاندھی ایک طویل وقت سے ایس پی جی کی سکیوریٹی رکھتے ہیں۔ ان کے تعلق سے ساری معلومات دنیا بھر کو ہیں۔ اب اگر دہلی پولیس یہ سوا ل کرے کہ ان کی آنکھوں کا رنگ کیا ہے اور ان کے بال کس رنگ کے ہیں۔ وہ کپڑے اور جوتے کس طرح کے پہنتے ہیں تو یہ بات مضحکہ خیز ہی کہی جاسکتی ہے ۔ جو شخص ایس پی جی کی سکیوریٹی میں ہو اس کے تعلق سے اس طرح کی عام انداز کی باتیں اگر سکیوریٹی کا حصہ ہوں تو اسے قابل قبول نہیں کہا جاسکتا ۔ جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے وہ بھی صرف یہ کہتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتی کہ یہ دہلی پولیس کا معاملہ ہے اور سکیوریٹی کا حصہ ہوسکتا ہے ۔
مرکزی حکومت کو واقعتا یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ دہلی پولیس کو کیوں راہول گاندھی کے تعلق سے اس طرح کی عام نوعیت کی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت آن پڑی تھی جبکہ وہ طویل وقت سے ایس پی جی کی سکیوریٹی میں ہیں۔ اگر دہلی پولیس کو راہول گاندھی کے تعلق سے اس طرح کی عام نوعیت کی معلومات بھی حاصل نہیں ہیں تو اس پر بھی مرکزی حکومت کو دہلی پولیس سے سوال کرنا ہوگا کیونکہ دہلی پولیس مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا کہ راہول گاندھی کے تعلق سے سوالات عام نوعیت کا حصہ نہیں ہوسکتے اور یہ یقینی طور پر سیاسی جاسوسی ہی کا حصہ ہے اور سیاسی جاسوسی اس ملک میں نئی بات نہیں ہے ۔ خاص طور پر گجرات میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کے بعد اس مسئلہ کو معمول کا حصہ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ یہ جاسوسی اس لئے بھی توجہ طلب ہوجاتی ہے کیونکہ راہول گاندھی کو آئندہ چند ہفتوں میں نائب صدر سے کانگریس کی صدارت بھی سونپی جاسکتی ہے ۔