تیغ ہوتی ہے جسکے ہاتھوں میں
اُس کی دنیا غلام ہوتی ہے
سیاسی انتقامی کارروائیاں
بی جے پی کے لئے سیاسی انتقام لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ بی جے پی قائدین کی مخالفت کرنے والے عام شہری بھی ان کے عتاب سے محفوظ نہیں رہے۔ زعفرانی پارٹی کے نظریات اور پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے غدار قراردیئے جاتے ہیں، قوم دشمن عناصر کی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ اب جبکہ عام انتخابات قریب آرہے ہیںتو اپوزیشن کو خوف زدہ کرنے ان کے قائدین کے خلاف مقدمات کھڑا کرنے کارجحان پیدا کردیا گیا ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی اور ان کی والدہ سونیا گاندھی کو ٹیکس چوری کے کیس میں گھسیٹا گیا تو 10سال پرانے کیس میں چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کے خلاف مہاراشٹرا کی عدالت نے غیر ضمانتی گرفتاری وارنٹ جاری کیا۔ اس کا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کو سبق سکھایا جائے کیونکہ انہوں نے این ڈی اے کی تائید واپس لے لی اور پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کرکے مودی حکومت کو للکارا ہے۔ اس گستاخی کی سزا عدالتی چارہ جوئی کے ذریعہ دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مہاراشٹرا کی عدالت نے جولائی 2010 کے ایک کیس میں گرفتاری وارنٹ جاری کیا تھا۔ یہ بابلی پراجکٹ کے خلاف چندرا بابو نائیڈو کے احتجاجی مظاہرہ کے دوران درج کردہ ایک مقدمہ کا تسلسل ہے ۔ اس کیس میں مہاراشٹرا کی عدالت نے چندرا بابو نائیڈو کے خلاف کئی سمن جاری کئے تھے لیکن کسی بھی سمن کا جواب نہیں دیا گیا ۔ اب عدالت نے گرفتاری وارنٹ جاری کیا ہے تو اس وارنٹ نے آندھرا پردیش میں سیاسی طوفان کھڑا کردیا ہے۔ مہاراشٹرا کی پولیس نے دریائے گوداوری پر بابلی پراجکٹ کی تعمیر رکوانے کے لئے چندرا بابو نائیڈو کے احتجاج کے خلاف کیس در ج کیا تھا۔ ان کے ساتھ دیگر 15 کے خلاف بھی کیس درج ہوا۔ عدالت نے ان تمام کو وارنٹ جاری کیا ۔ اب بے وقت کارروائی ہوگی یا 10سال بعد کسی کیس کو زندہ کیا گیا تو یہی کہا جائے گا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت نے انتقامی سیاست کا سہارا لیا ہے۔ تلگودیشم نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی انتقامی سیاست میں ملوث ہوگئی ہے۔ بی جے پی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے قانون کو اپنا کام کرنے دینے کی بات کہی ہے ۔ اس کیس میں تلگودیشم کیا کہتی ہے ، بی جے پی کا جواب کیا ہوتا ہے، اس سے ہٹ کر اس مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کئی سیاسی راز کھلیں گے۔ ایک تو آندھرا پردیش میں بھی وسط مدتی انتخابات کروانے کی کوشش ہوگی کیونکہ اپوزیشن لیڈر وائی ایس جگن موہن ریڈی نے حال ہی میں اشارہ دیا ہے کہ آندھرا پردیش میں جنوری میں انتخابات ہوں گے۔ آخر اس طرح کی قیاس آرائی کرنے کی کیا بنیا د ہوسکتی ہے۔ تلنگانہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کی راہ ہموار کرنے والی مرکزی حکومت کو اب آندھرا پردیش میں بھی انتخابات کی جلدی ہے تو وہ تلگودیشم حکومت کو قانونی طور پر خوف زد ہ کرنا چاہتی ہے۔ کسی بھی علاقہ کی ترقی کو متاثر کرکے دوسرے علاقہ کو ترقی دینے کی کوشش کے خلاف احتجاج کرنا اگر غیر اُصولی یا غیر قانونی بات ہے تو اس پر بحث ہونی چاہیئے۔ نائیڈو نے اپنے علاقہ کے حصہ کے پانی پر روک لگانے والے بابلی پراجکٹ کے خلاف احتجاج کیا تو یہ احتجاج ایک جمہوری حق ہے۔ لیکن جب کسی علاقہ کی سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے تو مرکز پر اختیارات کا بیجااستعمال شروع کرنے کا الزام بھی عائد ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر چندرا بابو نائیڈو کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو آندھرا پردیش میں سیاسی طوفان اُٹھ کھڑا ہوگا؟ یا پھر اس گرفتاری کے بہانے مرکز کی جانب سے آندھرا پردیش میں صدر راج نافذ کردیا جائے گا۔ اگر آندھرا پردیش میں صدر راج نافذ ہوگا تو اس کے کئی سیاسی عواقب و نتائج برآمد ہوں گے۔ 19جولائی 2010کو چندرا بابو نائیڈونے مہاراشٹرا کی سرحد پر احتجاج کرنے کااعلان کیا تھا ، غیر منقسم آندھرا پردیش میں کانگریس کی حکومت تھی اور چیف منسٹر کی حیثیت سے کے روشیا اقتدار پر تھے۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے چندرا بابو نائیڈو نے اعلان کیا تھا کہ وہ بابلی پراجکٹ کے مقام پر احتجاج کریں گے۔ اس پر مہاراشٹرا پولیس نے امتناعی احکام نافذ کئے تھے۔اُس وقت جو کچھ بھی ہوا وہ ایک علاقہ کے عوام کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کے خلاف احتجاج تھا اس کو اب سیاسی گرمی دینے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ علاقائی استحکام اور ایک ریاست کے عوام کے ساتھ ناانصافی والی کارروائی ہوگی۔ یہ ڈیم اب تعمیر ہوچکا ہے ، تلنگانہ اور کسی بھی علاقہ سے کوئی احتجاج ہی نہیں ہوا، دونوں جانب سے عوام بھی بابلی پراجکٹ کو بھول چکے ہیں لیکن اب اس کیس کو اُٹھانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تلنگانہ میں اپوزیشن کے عظیم اتحاد کو روکنے کیلئے مرکز نے یہ کارروائی کی ہو یا آندھرا پردیش میں سیاسی طوفان کھڑا کرنے کی کوشش ہو۔ حکومت نے 14 سال پرانے کانگریس لیڈر جگا ریڈی کے کیس کو بھی اُٹھایا ہے ۔ بہر حال انتخابات سے قبل سیاسی انتقامی کاررائیوں کے ذریعہ سیاسی خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے جو سراسر زیادتی اور یکطرفہ طاقت کا مظاہرہ ہے۔