سیاستدانوں کا کردار

دل تو ایک ہے لیکن نام دل بدلتا ہے
بس گیا تو گلشن ہے ، لٹ گیا تو سہرا ہے
سیاستدانوں کا کردار
ہندوستانی سیاست میں ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے کی روایت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر لیڈر اپنے حریف پر اُنگلی اُٹھاتا ہے۔ یہ بعض سیاستدانوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ ترقی کا موقع ہاتھ سے چلا جائے تو کف افسوس ملتے ہوئے اپنے آقاؤں پر الزام تراشیاں کرتے ہیں یا ان کے بارے میں ایسی باتوں کو پھیلاتے ہیں جو انھوں نے اپنی وفاداری کے دنوں میں معلوم کرلی تھیں۔ کانگریس کے سابق لیڈر اور سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے بھی حال ہی میں کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کے بارے میں اپنی سوانح حیات میں کچھ ایسے تذکرے کئے ہیں جس کی تشہیر کے ذریعہ نام حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سونیا گاندھی کو وزیراعظم بننے سے روکنے کے لئے ان کے فرزند راہول گاندھی نے اگر دباؤ ڈالا تھا تو اس میں کوئی سیاسی حرج نہیں ہے۔ ایک بیٹا اپنی ماں کی زندگی و حیات کی فکر کرتا ہے تو یہ ان کا ذاتی معاملہ کہلاتا ہے۔ نٹور سنگھ نے کانگریس کے اندر کی بعض باتوں کو آشکار کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے کہ وہ سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی کے بہت ہی قریبی فرد تھے جنھیں ان دونوں قائدین کے ہر لمحہ و ہر حرکت کا علم تھا۔ نٹور سنگھ نے حالیہ دنوں میں سلسلہ وار ٹی وی چیانل انٹرویوز اور اخبارات کو دیئے گئے بیانات کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کانگریس کے وہ تمام حالات سے واقف ہیں، لیکن انھوں نے کانگریس کی وفاداری سے ہاتھ اُس وقت کھینچ لیا تھا، جب ان کا نام عراق کے غذا برائے تیل اسکام میں نمودار ہوا۔ اس اسکینڈل میں رشوت کا معاملہ اہم تھا جہاں کئی ملین ڈالرس کی رقم بطور رشوت حاصل کی گئی تھی۔ سونیا گاندھی نے اسکام کے منظر عام پر آنے کے بعد نٹور سنگھ کو ہٹادیا اور انھیں صفائی کا کوئی موقع نہیں دیا۔ اس لئے سونیا گاندھی کے تعلق سے ان کے اندر بغض پیدا ہوگیا تھا۔ بی جے پی کے ساتھ وابستگی اور ان کے فرزند بی جے پی کے رکن اسمبلی ہیں تو ان کی سوچ میں زعفرانی رنگ آمیزی واضح ہورہی ہے۔ نٹور سنگھ کو 2004ء کے بعد سے ملک کی بڑی قیادت کی بھی آرزو تھی۔ وزارتِ عظمیٰ کے لئے جب سینئر قائدین کے ناموں پر غور ہورہا تھا تو انھوں نے خود کو اس عہدہ کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن آرزو پوری نہیں ہوئی تو کانگریس سے دُوری اور سونیا گاندھی کے رویہ سے نفرت پیدا کرلی گئی۔ سیاستدانوں میں یہ عام بات ہے کہ وہ پارٹی بدلتے ہی اپنی دیانتداری اور وفاداری کا چولہ بھی اُتار لیتے ہیں۔ نٹور سنگھ کے انکشافات سے تو ان کی کتاب کو زبردست شہرت مل گئی، مگر ان کی سیاسی بے وفائی اور بددیانتی کی ایک بدترین مثال بھی پیدا ہوگئی ہے۔ 2004ء میں سونیا گاندھی کی خاموشی نے کانگریس کے اندر اضطرابی کیفیت پائی جاتی تھی، مگر منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنائے جانے کے بعد بھی سونیا گاندھی کے حامیوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی کہ انھو ںنے از خود وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ سے دُوری کیوں اختیار کی۔ سونیا گاندھی کی یہ اپنی ضمیر کی آواز کا فیصلہ تھا یا راہول گاندھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کی والدہ کا حشر بھی ان کے والد راجیو گاندھی اور دادی اندرا گاندھی کی طرح ہو، مگر کانگریس کے درباریوں کی سوچ اور ان کی تربیت نے نٹور سنگھ کو جس طرح کا باغی بنایا ہے، یہ دیگر پارٹیوں کے لئے بھی ایک اِشارہ ہے کہ سیاسی وفاداروں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوگا۔ عوام الناس کے لئے یہ بات کوئی سنسنی خیز نہیں ہے کہ راہول گاندھی نے اپنی والدہ کو وزیراعظم بننے سے روکا تھا۔ اس واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کانگریس کے سب سے زیادہ قابل، پڑھے لکھے اور دانشور قائدین جیسے نٹور سنگھ نے 83 سال کی عمر میں باغیانہ رویہ اختیار کرلیا۔ نہرو۔ گاندھی خاندان سے برسوں وابستگی کے بعد بدعنوانیوں میں ماخوذ نٹور سنگھ کو اقوام متحدہ کی اس رپورٹ نے باغی بنادیا کہ وہ تیل اسکینڈل میں ملوث ہیں۔ ماضی کی بدنامی سے پہنچنے والے ضرب کا مداوا وہ اپنی سوانح حیات میں گاندھی خاندان پر الزامات عائد کرکے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کانگریس یا کسی اور پارٹی سے وابستہ لیڈر اپنی علیحدگی کے بعد اپنی ذاتی یادداشت کو ضبط تحریر لانے کی حماقت کرتے ہیں تو کردار سیاست کے کھیل میں مختلف ناموں کو بے نقاب کیا جائے گا۔ یہ کوئی صحت مند علامت نہیں ہوگی۔ آج کے دور میں جب فیس بُک پر سیاسی و سماجی اداروں کے بعض برسرخدمت افراد اپنے فرضی ناموں کے ساتھ حکومت کی کمزوریوں اور اپوزیشن کے موقف کو اُچھالتے ہیں، اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور حکومت، سیاستدانوں یا معزز شخصیتوں کے کاموں کو منفی حوالے سے پیش کرتے ہیں تو نٹور سنگھ جیسے سینئر سیاستدانوں کی بہتان تراشانہ مزاج اور زہریلے پروپگنڈے کو مزید ہوا ملے گی۔ سیاستدانوں کو اپنے شعبہ کے وقار کو ملحوظ رکھنے اور اس کی نیک نامی کے لئے کام کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی۔ ذاتی زندگی اور سیاسی و عوامی زندگی میں فرق محسوس کرنا ضروری ہے۔ نٹور سنگھ کے ساتھ بھی کانگریس نے اگر زیادتی کی ہے تو یہ ان کی گاندھی خاندان سے دیرینہ وابستگی اور وفاداری کا صِلہ نہیں ہے۔ سیاستداں اپنے اپنے کردار سیاست میں اس طرح مشغول ہوں گے تو انھیں اس بات کی فکر نہ ہوگی کہ دُنیا میں کیا ہورہا ہے۔ عوام کے مسائل کیا ہیں اور عوام کی ضروریات کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے؟