سکندرآباد میں بی جے پی امیدوار کو مسلمان شکست دیں گے

مسلم قیادت کے امیدوار کی موجودگی سے بنڈارو دتاتریہ کا موقف مستحکم ، دکن کرانیکل کی رپورٹ پر چہ میگوئیاں

حیدرآباد ۔ 24 ۔ اپریل : پارلیمانی حلقہ سکندرآباد میں بی جے پی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ کو امید ہے کہ انتخابی میدان میں مقامی جماعت کے امیدوار کی موجودگی سے انہیں کامیابی حاصل ہوگی ۔ انگریزی روزنامہ دکن کرانیکل میں کل ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ اس حلقہ میں گذشتہ دو انتخابات سے کامیابی حاصل کرتے آرہے کانگریس امیدوارکو اس مرتبہ بی جے پی امیدوار سے سخت مقابلہ درپیش ہے ۔ اخبار نے اس کی وجہ انتخابی میدان میں مسلم قیادت کی موجودگی بتائی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں قیادت نے اپنا امیدوار ٹھہرایاہے ۔ اس حلقہ میں چار لاکھ مسلم رائے دہندے ہیں۔ ان انتخابات میں سکندرآباد سے قیادت کے امیدوار کو لے کر کافی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ کانگریس کے ایک حلقہ کا کہنا ہے کہ بی جے پی امیدوار بنڈارو دتاتریہ کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں کبھی آنجہانی راجیو گاندھی کے قریبی و با اعتماد ساتھیوں میں شامل رہے وی ہنمنت راؤ کے گروپ کا کہنا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش اور خفیہ معاملت کرتے ہوئے عنبر پیٹ سے مقامی جماعت نے ایک دلت نوجوان کو ٹکٹ دیا ہے ۔ جب کہ ہنمنت راؤ بھی بیاک ورڈ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے دو امیدواروں کی موجودگی میں ریڈی طبقہ سے تعلق ر کھنے والے امیدوار جی کشن ریڈی اسی طرح کامیاب ہوسکتے ہیں جس طرح گذشتہ انتخابات میں کرناٹک کے ریڈی برادران کے ساتھ بڑے پیمانے پر کی گئی معاملت کے نتیجہ میں کامیاب ہوئے تھے ۔ سکندرآباد کے ایک مسلم کانگریس لیڈر کے مطابق حلقہ لوک سبھا سکندرآباد میں 4 لاکھ سے زائد مسلم رائے دہندے ہیں جب کہ 34 امیدوار مقابلہ کررہے ہیں ۔ اگر مسلمان رائے دہندے دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو اس حلقہ سے فرقہ پرست بی جے پی کو پھر ایک بار ہزیمت سے دوچار کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2004 کے عام انتخابات میں پرانا شہر کے رہنے والے انجن کمار یادو نے بی جے پی امیدوار کو 68758 ووٹوں کی اکثریت سے ہرادیا تھا ۔ اسی طرح انجن کمار یادو نے ہی 2009 کے عام انتخابات میں بنڈارو دتاتریہ کو زائد از ایک لاکھ 70 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی تھی ۔ بی جے پی ماضی کے انتخابات میں شرمناک شکست کا بدلہ لینے کے لیے پوری طرح تیار ہوگئی ہے ۔ سکندرآباد کے ایک کارپوریٹر کے خیال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مسلم رائے دہندے کانگریس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں تو دتاتریہ کی شکست یقینی ہوگی ۔ دتاتریہ کو شکست سے بچانے کے لیے گجرات سے مودی کو حیدرآباد آنا پڑا ہے لیکن سکندرآباد پارلیمانی حلقہ کے مسلمان بی جے پی امیدوار کی شکست کو یقینی بناتے ہوئے فرقہ پرستی اور نریندر مودی کے چہرہ پر سیکولرازم کا ایک زور دار طمانچہ رسید کرسکتے ہیں اور سکندرآباد کے مسلمانوں کا طمانچہ اس قدر زور دار ہوگا کہ اس کی آواز سارے ہندوستان میں سنی جائے گی ۔ پارلیمانی حلقہ سکندرآباد میں 7 اسمبلی حلقے ہیں ان حلقوں کے اکثر کانگریس قائدین کا خیال ہے کہ مسلم قیادت کے امیدوار کی موجودگی سے بی جے پی کا موقف طاقتور ہوا ہے ۔ بی جے پی کے اس طاقتور موقف کو حلقہ پارلیمان سکندرآباد کے مسلمان ہی ووٹوں کے متحدہ استعمال کے ذریعہ شکست میں بدل سکتے ہیں ۔ اسی طرح عنبر پیٹ میں مسلمان ہنمنت راؤ کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی ریاستی یونٹ کے سربراہ جی کشن ریڈی کو بھاری اکثریت سے ہراسکتے ہیں ۔ مشیر آباد کے ایک ممتاز ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مسلمان اب باشعور ہوچکے ہیں وہ دوست اور دشمن میں فرق محسوس کرتے ہیں سارے ہندوستانیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بی جے پی کے حق میں جانے والا ایک ایک ووٹ ہندوستان کی تہذیب و تمدن فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کردے گا ایسے میں مسلمان رائے دہندے متحدہ طور پر سیکولر پارٹی کے امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے سکندرآباد سے بی جے پی امیدوار کی شکست کو حقیقت میں بدل دیں گے انہوں نے مقامی جماعت کی جانب سے امیدوار ٹہرائے جانے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے صرف اور صرف بی جے پی کی طاقت میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ راقم الحروف سے بات چیت کے دوران کچھ لوگوں نے یہ بھی سوال کیا کہ آخر یہ قیادت کیوں اس طرح کے اقدامات کررہی ہے ۔ ان اقدامات سے کون مضبوط ہوگا ؟ کس کو کامیابی ملے گی ؟ اور کس کا فائدہ ہوگا ؟ ۔۔