مسلمان، عیسائی اور سیما آندھرا رائے دہندوں کی فیصلہ کن طاقت، وائی ایس آرکانگریس پارٹی کو مثبت نتائج کی امید
حیدرآباد ۔31 ۔ مارچ (سیاست نیوز) حلقہ لوک سبھا سکندرآباد کے چناؤ پر تمام بڑی پارٹیوں نے اپنی توجہ مرکوز کردی ہیں۔ یہ لوک سبھا حلقہ کئی اعتبارات سے اہمیت کا حامل ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ مجوزہ انتخابات میں اس حلقہ کے رائے دہندے تبدیلی کے حق میں فیصلہ سنائیں گے۔ اقلیتوں ، عیسائی ، کمزور طبقات اور سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے رائے دہندوں کی قابل لحاظ آبادی پر محیط اس حلقہ میں حیرت انگیز اور دلچسپ نتائج کی امید ہے۔ سکندرآباد کے تحت 7 اسمبلی حلقوں میں مسلمان ، عیسائی اور سیما آندھرا کے رائے دہندے فیصلہ کن طاقت رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو اس حلقہ سے مثبت نتائج کی امید ہے۔ کانگریس اور تلگو دیشم جو روایتی طور پر اس حلقہ پر اپنی دعویداری پیش کرتے رہے ہیں، اس مرتبہ انہیں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی حکمت عملی کے باعث الجھن کا سامنا ہے۔ گزشتہ دو میعادوں سے کانگریس کا اس حلقہ پر قبضہ ہے جبکہ اس سے قبل دو مرتبہ مسلسل بی جے پی نے اس حلقہ کی نمائندگی کی۔ آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد تبدیل شدہ سیاسی حالات میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے سکندرآباد لوک سبھا کے علاوہ بعض دیگر ایسے حلقوں میں بہتر مظاہرے کی حکمت عملی تیار کی ہے جہاں اقلیتوں کے علاوہ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے رائے دہندوں کی خاصی تعداد موجود ہیں۔ مشیرآباد ، خیرت آباد، جوبلی ہلز ، صنعت نگر ، عنبر پیٹ اور سکندرآباد اسمبلی حلقوں میں مسلم اور عیسائی طبقات کے علاوہ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کی خاصی تعداد موجود ہے اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو امید ہے کہ اسے ان تینوں زمروں سے زبردست تائید حاصل ہوگی۔ پارٹی نے سکندرآباد ، ملکاجگیری لوک سبھا حلقوں کے علاوہ کھمم لوک سبھا حلقے کے بارے میں جو سروے کیا ہے ، اس کے مطابق ان حلقوں میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی طاقتور موقف میں ہے، بشرطیکہ اسے مذکورہ تینوں زمروں کے رائے دہندوں کی تائید حاصل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ صدر وائی ایس آر کانگریس پارٹی جگن موہن ریڈی نے اپنی بہن شرمیلا کو تلنگانہ میں پارٹی کی انتخابی مہم کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ شرمیلا مجوزہ انتخابات میں سیما آندھرا کے کسی بھی حلقہ سے مقابلہ نہیں کریں گی۔ سیما آندھرا میں جگن اور ان کی والدہ وجئے اماں انتخابی مہم کی قیادت کریں گی جبکہ شرمیلا تلنگانہ میں روڈ شو اور جلسوں کے ذریعہ پارٹی کے موقف کو مستحکم کرنے کی جدوجہد کریں گی۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ کے سروے کے مطابق رائے دہندے اس مرتبہ تبدیلی کے حق میں ہیں اور وہ روایتی طرز کے قائدین کے بجائے قابل اور مسائل سے واقف کسی امیدوار کو منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح عام آدمی پارٹی نے بے داغ کردار کے حامل امیدواروں کے انتخاب کو ترجیح دی اسی طرح سکندرآباد اور اس کے تحت آنے والے اسمبلی حلقوں میں وائی ایس آر کانگریس پار ٹی بھی بے داغ امیدواروں کو میدان میں اتارنے کی تیاری کر رہی ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق اگر سکندرآباد کے تحت 7 اسمبلی حلقوں میں مسلمان ، عیسائی اور سرکاری ملازمین سنجیدگی کے ساتھ تائید کریں تو مسلم امیدوار کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ کی تاریخ میں 5 مرتبہ مسلم امیدوار کامیابی کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ 1957 ء سے 1980 ء تک اس حلقہ پر مسلم امیدوار منتخب ہوئے۔ جن میں 1957 سے 1967 ء تک دو مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر احمد محی الدین منتخب ہوئے جبکہ 1967-71 کی میعاد میں باقر علی مرزا کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ سینئر قائد ایم ایم ہاشم 1971 ء میں پہلی مرتبہ تلنگانہ پرجا سمیتی اور 1977 ء میں دوسری مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر اس حلقہ سے منتخب ہوچکے ہیں۔