سود ایک سماجی لعنت

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
انسانی سماج میںمتمول اور غریب ہر طرح کے افراد رہتے ہیں، ان کی ضرورتیں ایک دوسرے سے وابستہ رکھی گئی ہیں، امیر اور غریب اپنی ضرورتوں کی تکمیل میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ غریب محنت مزدوری کرکے سماج کے وہ کام نمٹاتے ہیں، جس کو مالدار افراد انجام نہیں دے سکتے، اس طرح مالداروں کے کام آسان ہو تے ہیںاور غریبوں کی ضرورتیں پوری ہو تی ہیں۔ جو غریب چھوٹے مو ٹے کاروبار کر تے ہیں، اگر ان کو مالی ضرورت درپیش ہو تو مالداروں سے قرض حاصل کرکے وہ اپنی ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسلام نے مالداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ غریبوں کی مالی مدد کریں یا کم از کم بغیر سود کے ان کو قرض دیں، تاکہ وہ اپنی ضرورتیں پوری کرسکیں۔ مقروض اگر تنگدست ہو تو اس کو قرض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں اور اگر قرض پورے کا پورا معاف کردیں تو اس کو بہتر عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، جن لوگوں کو مال دیا گیا ہے وہ تنہا اس کے حقدار نہیں ہیں، بلکہ اسلام نے ان کے مال میں محروم افراد اور حسب ضرورت مانگنے والوں کا بھی حق رکھا ہے۔ اس نعمت کا حق یہی ہے کہ غریب عوام بھی اس سے فائدہ اٹھائیں، لیکن آج کل قرض حسن دینے کا رواج ختم ہو تا جارہا ہے، اس لئے لوگ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے سودی قرض لینے پر مجبور ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور خریدوفروخت کو جائز رکھا ہے۔ (البقرہ۔۷۵)

مالی قرض پر نفع کے نام سے جو رقم دی جاتی یا لی جاتی ہے وہ سود ہے۔ ذاتی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے دیا گیا قرض ہو یا تجارت و کاروبار کے لئے، ہر طرح کے قرض پر لیا جا نے والا زائد مال سود ہے۔ اسلام نے اس سماجی لعنت کی بیخ کنی کی ہے۔ سودی کاروبار کی لعنت ایک انسان کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرا دیتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ تعاون و ہمدردی، شفقت و محبت ، اخوت و بھائی چارگی، درد مندی و چارہ سا زی جیسی اعلیٰ صفات سے وہ محروم ہو جاتا ہے۔ سنگدلی، خود غرضی اور شقاوت اُس کی شخصیت کا حصہ بن جا تے ہیں۔ مال کی محبت اس کو اندھا کردیتی ہے، بیمار، بھوکے پیاسے، مفلس و ضرورت مند، بے روزگار و بے یار و مددگار انسانوں کی مصیبتیں اس کے اندرکوئی ہلچل نہیں پیدا کر سکتیں، یعنی وہ ان انسانی احساسات سے عاری ہو جاتا ہے۔ ایک مصیبت زدہ انسان جب مجبور ہو کر سودی قرض کے دَلدل میں پھنس جا تا ہے تو پھر اس کا نکلنا بہت دُشوار ہو جا تا ہے، وہ جتنا ہی اس سے نکلنا چاہتا ہے، اتنا ہی اس دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ سود خوروں کو بظاہر مال بڑھتا دِکھائی دیتا ہے، لیکن معنوی اعتبار سے ان کے مال سے برکت چھن جا تی ہے، بالآخر وہ مال ان کی ہلاکت و بربادی کا پیغام لا تا ہے اور مالِ حرام کی نحوست ان کو اپنے شکنجہ میں کس لیتی ہے۔ وہ مال رکھ کر بھی دنیا میں خوشیوں سے محروم رہتے ہیں، سکون و اطمینان ان سے چھن جاتا ہے، سب ان سے نفرت کر تے ہیں، لوگوں کی نگاہوں سے گر جاتے ہیں، انسانی دِلوں میں ان کے لئے کوئی جگہ با قی نہیں رہتی، آخرت کی بر بادی پھر الگ ہے۔

حالیہ دنوں چھتہ بازار کے ایک مطبع کے مالک کا بہیمانہ قتل سود کی وجہ سے ہوا اور کئی سود خوروں کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ جان جیسی عظیم نعمت سے چند حقیر روپیوں کے لئے ایک انسان کو محروم کردیا گیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مقتول و قاتلین سب مسلمان ہیں۔ قتل ایک سنگین جرم ہے، اس کی سزا اسلام میں بھی سخت ہے اور ملک کا قانون بھی اس سلسلے میں بڑا سخت ہے، اس کے باوجود ہمارے ملک میں دن دَہاڑے قتل کی وارداتیں عام ہو گئی ہیں۔ قرآن نے ایک انسان کے ناحق قتل کو ساری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ ہماری حکومت نے غیر قانونی سودی کاروبار پر روک لگائی ہے اور قانو ن کے دائرے میں رہ کر سودی کاروبار کر نے والوں کو چھوٹ دے رکھی ہے۔ سود، سود ہے، یہ کاروبار خواہ قانون کی خلاف ورزی کر کے کیا جائے یا قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے، ہر طرح کا سودی کاروبار انسانی سماج کی پیشانی پر کلنک ہے۔ سود کی لعنت سے جب تک سماج کو پاک نہ کیا جائے، اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت غریب عوام کے لئے ایسی اسکیموں کا آغاز کر ے، جس سے ان کا بھلا ہو اور ان اسکیموں سے استفادہ عوام کے لئے آسان ہو، لیکن عام طور پر ان اسکیمات کے فوائد غریبوں کو نہیں پہنچ پاتے، درمیانی افراد غریب عوام کی سادہ لوحی کا فائدہ اُٹھاکر اس سے مستفید ہو تے ہیں۔

ساری انسانیت کی بھلائی و خیر خواہی مسلمانوں کا فرض منصبی ہے، بھلائی اور خیر کو عام کر نے کے ساتھ برائیوں سے معاشرے کو پاک کر نے کے وہ ذمہ دار ہیں۔ انسانیت و خیر خواہی پر مبنی اسلامی پیغام پر خود عمل کر نے، اس کی دعوت دینے اور انسانیت کے ساتھ سچی ہمدردی کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے وہ پا بند ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ انسانیت کی خدمت کے لئے ایسا لائحۂ عمل مرتب کریں کہ جس سے ایک اچھا انسانی سماج تشکیل پا سکے۔
بلاسودی قرض کا لائحۂ عمل مسلمانوں کو تیار کرنا چاہئے، تاکہ انسانوں کی بنیادی و جائز ضرورتیں پوری ہوسکیں اور دُکھی انسانیت کا کچھ نہ کچھ مداوا ہوسکے۔ علماء، قائدین اور دانشوروں پر مبنی ایک جماعت تشکیل دی جانی چاہئے، جس میں ساری تنظیموں کی نمائندگی ہو۔ پھر وہ جماعت سودی کاروبار کر نے والے مسلمانوں سے مل کر اس کاروبار سے توبہ کرنے کی تلقین کرے اور اس کی حرمت و شناعت سے ان کو روشناس کرائے۔