سنسنی خیزی کی سیاست

ذلت یا شرافت کچھ نہیں اب
مری دولت مری پہچان اب ہے
سنسنی خیزی کی سیاست
ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کئی سیاسی قائدین صرف سنسنی خیزی کی سیاست کے عادی ہوچکے ہیں۔ تقریبا ہر گوشے سے ایسے ریمارکس اور ایسے کام کئے جا رہے ہیں جن سے سنسنی پیدا ہو رہی  ہے اور وہ خبروں اور سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی مثال بی جے پی لیڈر سبرامنین سوامی کی ہے ۔ بی جے پی لیڈر سبرامنین سوامی ایسا لگتا ہے کہ سنسنی خیزی کی سیاست کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہر سنسنی خیز مسئلہ پر وہ مرکزی کردار بننا چاہتے ہیںاور نہ صرف سیاسی مخالفین کیلئے مسائل پیدا کر رہے ہیں بلکہ اس کے نتیجہ میں ملک کے ماحول کیلئے بھی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ حساس نوعیت کے مسائل کو بھی اپنے انداز سے دیکھنے اور نمٹنے کی کوششیں لگاتار جاری رہتی ہیں۔ سیاسی مخالفین کے خلاف الزامات عائد کرنے کے معاملہ میں ہو یا ان کے خلاف ریمارکس کرنے کے معاملہ میں ہوں سبرامنین سوامی کسی سے پیچھے رہنا نہیںچاہتے ۔ اسی طرح سبرامنین سوامی کے علاوہ کئی دوسرے قائدین بھی ہیں جو سنسنی خیزی پیدا کرتے ہوئے عوام پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں اور سرخیوں کی زینت بنے رہنا چاہتے ہیں۔ کوئی لیڈر مسلمانوں کے خلاف ریمارکس کرتے ہوئے سنسنی پیدا کرنا چاہتا ہے اور ملک میں ایک نئے مباحث شروع کردئے جاتے ہیں تو کوئی وندے ماترم یا بھارت ماتا کی جئے جیسے نعروں کے مسئلہ کو ہوا دے کر اس پر الگ سے ماحول پیدا کردیا جاتا ہے ۔ کوئی ان کے بیانات پر تبصرے اور ریمارکس کرتا ہے تو پھر ماحول کو اور بھی پراگندہ کردیا جاتا ہے ۔ کسی گوشے سے یکساں سیول کوڈ کی بات کی جاتی ہے تو کوئی رام مندر کے مسئلہ پر اظہار خیال شروع کردیتا ہے ۔ کوئی گوشہ بیف کے مسئلہ کی شدت سے مخالفت کرتا ہے تو کوئی اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کرتا ہے ۔ ایسی سیاست سے عوام کو درپیش بنیادی اور اہم ترین مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ سنسنی خیزی کچھ وقت کیلئے کسی بھی لیڈر یا تنظیم کیلئے تشہیر کا ذریعہ بن سکتی ہے لیکن اس سے ملک اور ملک کے عوام کی انتہائی بدخدمتی ہوتی ہے ۔ ملک کے سامنے کئی اہم ترین اور حساس نوعیت کے مسائل ہیں ۔ ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ان مسائل کی یکسوئی کیلئے تجاویز و مشورے دئے جاسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا ہے ۔
ملک کے بیشتر شہروں اور ریاستوں میں عوام کو پینے کیلئے پانی تک دستیاب نہیں ہو رہا ہے ۔ لوگ پانی کی ایک ایک بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔ کئی کئی کیلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے معمولی مقدار میں پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ جانوروں کو چارہ اور پانی دستیاب نہیں ہے ۔ ملک کا نوجوان طبقہ بیروزگاری کا شکار ہے ۔ وہ حالات اور مسائل کی مار کھانے پر مجبور ہے ۔ خواتین کیلئے خود ہمارے اپنے شہر محفوظ نہیں رہ گئے ہیں۔ جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ تعلیم کے شعبہ میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے ۔ بے شمار خاندان بنیادی ضرورتوں سے تک محروم ہیں۔ ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو بیت الخلا جیسی سہولت تک دستیاب نہیں ہے ۔ لوگ غربت کا شکار ہیں۔ ایسے مسائل پر ملک کے ہر ذمہ داری اور ذی شعور و فکر مند شہری اور تنظیم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اپنے اقتدار کیلئے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹاتی رہے اور انہیں ایسے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا جائے جن کا ان کی حالت سے کوئی تعلق نہیںرہتا ۔ لیکن ذمہ دار سیاسی قائدین کو چاہئے کہ وہ حکومت کو بارہا عوام کے بنیادی مسائل کی سمت توجہ دلائے ۔ سیاسی جماعتوں کا اقتدار مستقل نہیں رہتا ۔ یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے لیکن جو کوئی عوام کے مسائل پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہوتا پھر اس کا مستقبل بھی عوام کے ہاتھوں زیادہ وقت تک محفوظ نہیں رہتا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں مسائل کا تو انبار ہے لیکن ان کو حل کرنے کی بجائے محض وقتی فائدہ کی اور سنسنی خیزی کی سیاست کی جا رہی ہے ۔
سنسنی پیدا کرنے اورعوام کو غیر ضروری مسائل میں الجھانے سے سیاسی قائدین کو وقتی طور پر تو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے اور انہیں عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹاکر اپنے اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے کچھ وقت تو ضرور مل سکتا ہے لیکن اس سے نہ ملک کی کوئی خدمت ہوسکتی ہے اور نہ مسائل کی یکسوئی ہوسکتی ہے ۔ ملک اور ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم بنیادی مسائل کی یکسوئی پر توجہ دیں اور غیر ضروری و سنسنی پیدا کرنے والے مسائل سے صرف نظر کریں۔ ایک دوسرے پر الزامات اور تنقیدیں سیاست کا حصہ ہیں لیکن ساری توانائی اور وقت اسی پر صرف کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ ایسا کرنے سے ملک کا مستقل داو پر لگ سکتا ہے اور سیاسی جماعتیں ہوں ‘ عوام کی تنظیمیں ہوں یا غیر سرکاری ادارے ہوں ان سب کو گریز کرنا چاہئے تاکہ ساری توانائیاں مسائل کی یکسوئی اور حالات کو بہتر بنانے پر صرف کی جاسکیں۔