ڈاکٹر محمد عبد الحمید اکبر، گلبرگہ
ولادت: ۴؍رجب المرجب ۷۲۱ہجری، مطابق ۱۳۲۱عیسوی
وصال: ۱۶؍ذوالقعدۃ الحرام ۸۲۵ھ۔ مطابق: ۱۴۲۲ عیسوی
حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ کا اسم گرامی سید محمد اور کنیت ابوالفتح تھی ان کا لقب صدر الدین الولی الاکبر اور الصادق تھا۔ حضرت پیر نصیر الدین چراغ دہلی کی بارگاہ سے گیسودراز کا لقب عطا ہوا تھا۔ آپ کے جد اعلیٰ ابوالحسن جندی، علاؤالدین مسعود شاہ کے عہد حکومت میں دہلی چلے آئے تھے۔ اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی تھی۔ تاریخ حبیبی کے مطابق آپ کے آباء و اجداد خراسان سے ہندوستان آئے تھے۔ محمد علی سامانی کا بیان ہے کہ حضرت کا سلسلہ نسب بائیس واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ محمد تغلق کے حکم پر علماء، عمائدین اور مشائخین نے دہلی سے دولت آباد کا رخ کیا تو حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ بھی اپنے والد گرامی حضرت سید یوسف حسینی راجو قتال علیہ الرحمہ کے ساتھ دولت آباد پہنچے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم خلد آباد میں ہوئی، عبدالمجید صدیقی کے بقول شیخ بابو نامی ایک بزرگ نے انہیں اپنے مکتب میں پڑھایا اور حدیث و فقہ کے ابتدائی درس دئے تھے۔ اس کے بعد اپنے والد گرامی شاہ راجو قتال سے بھی علوم ظاہری و باطنی کا فیض حاصل کیا۔ کم عمری ہی سے آپ پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ ۷(سات) سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ فرمایا تھا۔ سولہ سال کی عمر تک حضرت بندہ نواز علیہ الرحمہ نے علوم و فنون کی بے شمار منزلیں طے کرلئے تھے۔ اپنے بھائی سید حسین چندن کے ساتھ دہلی میں ۱۶؍رجب ۷۳۶ھ کو آپ نے حضرت چراغ دہلی سے شرف بیعت حاصل کیا۔ اس کے بعد مجاہدۂ ریاضت، ذکر مراقبہ اور دوسرے مشاغل میں مصروف رہے۔ پیر و مرشد کی توجہ اور عنایت خاص کی وجہ سے سلوک کی منزلیں طے کرلیں۔ گھر کی سکونت ترک کرکے خطیرہ شیرخاں میں قیام کیا۔ بروز چہارشنبہ ۷۵۷ھ کو شیخ طریقت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔ ۱۷؍رمضان ۷۵۷ھ کو حضرت چراغ دہلی نے سفر آخرت اختیار فرمایا اور تیسرے دن حضرت سید محمد حسینی گیسودراز خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ نصیرالدین چراغ دہلی کے سجادۂ ولایت پر رونق افروز ہوئے اس طرح بندگان خدا کی رہبری میں دہلی میں (۴۴) چوالیس برس صرف کئے۔ ڈھائی تین سال سفر میں اور بقیہ بائیس سال گلبرگہ میں خدمت خلق میں صرف کئے۔ اس طرح خلافت کے بعد سے سفر آخرت تک آپ جملہ تقریباً ستر (۷۰) سال تک بندگان خدا کی رہبری کرتے رہے۔
چالیس سال کی عمر میں حضرت بندہ نواز علیہ الرحمہ نے بی بی رضا خاتون سے شادی فرمائی۔ جن سے دو(۲) صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہوئیں۔ بڑے فرزند سید محمد اکبر حسینی ایک برگزیدہ صوفی اور عالم ربانی تھے۔ دوسرے صاحبزادے سید یوسف عرف سید محمد اصغر حسینی بھی زیور علم و عرفان سے آراستہ تھے۔تقریباً ۸۰۴ھ میں آپ گلبرگہ تشریف لائے اور جامع مسجد کے قریب اپنے مریدوں کے ساتھ فروکش ہوئے۔
حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ اہل سنت و جماعت کے مسلک حقہ کے نہایت پابند بزرگ تھے۔الغرض حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ نے ایک سو چار سال چار ماہ بارہ یوم کی عمر پائی، جنہوں نے اپنی تمام زندگی حنفی المسلک اہل سنت و جماعت کے اصولوں کے مطابق گزاری۔ محمد علی سامانی نے ’’مخدوم دین و دنیا‘‘ سے گیسو دراز کی تاریخ اخذ کی ہے۔ چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں میں خواجہ بندہ نواز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک کثیر التصانیف بزرگ تھے۔ اسی وجہ سے انہیں ’’سلطان القلم‘‘کا لقب عطا کیا گیا تھا۔ غالباً چراغ دہلوی علیہ الرحمہ کو ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اندازہ ہوگیا تھا اس لئے انہوں نے خواجہ بندہ نواز کو تصنیف و تالیف کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’مرابہ تو کاراست‘‘ یعنی مجھے تم سے کام لینا ہے۔ پیر و مرشد کی یہی دعا تھا کہ آپ نے اپنی عمر مبارک کے مطابق (۱۰۵) کتابیں قلم بند کروائیں۔ گلبرگہ شریف میں ہر سال ذوالقعدۃ الحرام میں آپ کا عرس نہایت شاندار پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ علمی مذاکرے میں دانشوران علم و ادب اپنے مقالوں سے نوازتے ہیں۔ ملک بھر سے زائرین کثیر تعداد میں شریک رہتے ہیں۔ حضرت بندہ نواز علیہ الرحمہ کے سجادہ نشین قابل قدر کارنامے انجام دے رہے ہیں، اللہ ان کی عمر دراز کرے آمین ۔