سفر معراج کی متعدد نشانیاں

علامہ سید احمد سعید کاظمی

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے سامنے واقعہ معراج بیان فرمایا تو انھوں نے (معاذ اللہ!) تمسخر کیا اور ابوجہل نے قریش مکہ کو جمع کرکے مذاق اڑایا۔ ہر طرف آدمی دوڑائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرکے تکذیب و تمسخر کے لئے واقعہ معراج سنایا گیا۔ اسی دوران سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجا اور ان سے کہا کہ ’’تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں راتوں رات مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر پہنچا اور تمام آسمانوں کی سیر کرکے واپس آگیا، کیا ان کی ایسی بات کی بھی آپ تصدیق کریں گے؟‘‘۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ’’میں تو اس سے بھی زیادہ بعید چیزوں میں ان کی تصدیق کرتا ہوں، اگر انھوں نے فرمایا ہے تو اس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں‘‘۔

کفار قریش جو تکذیب و تمسخر کے درپے تھے، کہنے لگے کہ ہم نے آسمانوں کو تو دیکھا نہیں، لیکن مسجد اقصیٰ دیکھی ہے۔ آپ ہمارے سامنے اس کی پوری ہیئت، نوعیت اور کیفیت بیان فرمائیں۔ اللہ تبارک و تعالی نے مسجد اقصیٰ کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کردیا، آپﷺ اسے دیکھتے جاتے اور بیان فرماتے جاتے۔ یقیناً جو قادر و قیوم حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے پل جھپکنے سے پہلے بلقیس کا عظیم تخت لاسکتا ہے، وہ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجد اقصیٰ کو بھی حاضر کرسکتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس صورت میں فلسطین کے رہنے والوں نے مسجد اقصیٰ کو گم کیوں نہیں پایا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی عظیم قدرت سے یہ بعید نہیں کہ ملک شام میں مسجد اقصیٰ دیکھنے والوں کے سامنے اس کی ایسی مثال قائم فرمادے، جس کا دیکھنا مسجد اقصیٰ دیکھنے کے حکم میں ہو۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز۔

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصیٰ کے متعلق ہر سوال کا مسکت جواب دے چکے تو کفار قریش حیران ہوئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی مسجد اقصیٰ نہیں دیکھی۔ مجبوراً انھیں کہنا پڑا کہ مسجد اقصیٰ کے متعلق جو کچھ آپﷺ نے فرمایا سب درست ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ شاید کسی سے سن کر بیان کردیا ہو، کفار قریش کہنے لگے کہ مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بیان فرمادیا، لیکن یہ بتائیے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ بھی آپ کو کہیں ملا یا نہیں؟۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’ہاں!‘‘۔ (ایک شخص کا نام لے کر) ارشاد فرمایا کہ ’’بنی فلاں کے قافلہ پر مقام روحا پر میں گزرا، ان کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا، وہ اسے تلاش کر رہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھاکر اس کا پانی پی لیا، پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا، جیسے وہ پہلے رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کرکے اپنے پالان کی طرف واپس آئے تھے تو کیا انھوں نے اس پیالہ میں پانی ڈالا تھا یا نہیں؟‘‘۔ کفار قریش نے کہا ’’ہاں ٹھیک ہے،

یہ ایک بہت بڑی نشانی ہے‘‘۔ پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شخص کا نام لے کر فرمایا کہ ’’میں بنی فلاں کے قافلہ پر بھی گزرا اور فلاں اور فلاں (جن کا نام حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا، لیکن راوی کو یاد نہیں رہا) دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے، ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا اور وہ دونوں سوار گرپڑے، ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا، جب وہ آئیں تو دونوں سے یہ بات دریافت کرلینا‘‘۔ کفار قریش نے کہا ’’اچھی یہ دوسری نشانی ہوئی‘‘۔ پھر انھوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک قافلہ کی بابت معلوم کیا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’میں اس قافلہ پر مقام تنعیم میں گزرا ہوں‘‘۔ کفار قریش نے کہا ’’اس کی گنتی بتائیے اور وہ قافلہ کیا چیز لادکر لارہا ہے، اس کی ہیئت کیا ہے اور اس میں کون کون لوگ ہیں؟‘‘۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’ہاں! اس کی ہیئت ایسی اور ایسی ہے اور اس قافلہ کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے، اس پر دھاری دار دو بوریاں لدی ہوئی ہیں اور سورج نکلتے ہی مکہ میں پہنچ جائے گا‘‘۔ کفار قریش نے کہا ’’یہ تیسری نشانی ہوئی‘‘۔ پھر وہ کدیٰ پہاڑی پر آبیٹھے اور انتظار کرنے لگے کہ سورج کب نکلے، تاکہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کریں (معاذ اللہ!) ناگہاں ان میں سے ایک آدمی بولا ’’خدا کی قسم! یہ سورج نکل آیا‘‘۔ دوسری طرف ان ہی کے ایک آدمی نے اسی وقت کہا ’’خدا کی قسم! یہ قافلہ بھی آگیا، اس کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے، اس قافلہ میں فلاں فلاں آدمی ہیں، بالکل اسی طرح جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا تھا‘‘۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے اور یہ کہا کہ ’’(معاذ اللہ!) یہ کھلا جادو ہے‘‘۔
ابن ابی حاتم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ معراج کی رات جب جبرئیل علیہ السلام، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرکے بیت المقدس پہنچے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس مقام پر تشریف فرما ہوئے، جسے باب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مارکر سوراخ کردیا اور براق اس میں باندھ دیا۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد۳، صفحہ۶)

حافظ ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوۃ میں حضرت محمد بن کعب قرضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو قیصر روم کی طرف بھیجا۔ راوی نے حضرت دحیہ کے جانے اور پہنچنے کا پورا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ قیصر روم نے (حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام مبارک سن کر) ملک شام سے عرب کے تاجروں کو طلب کیا۔ حضرت ابوسفیان (جو اس وقت ایمان نہ لائے تھے) اور ان کے ہمراہی قیصر روم کے سامنے پیش کئے گئے۔ قیصر روم نے ان سے وہ مشہور سوالات کئے، جنھیں بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ (اس وقت) ابوسفیان نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح قیصر روم کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کو (معاذ اللہ!) حقیر و ذلیل کیا جائے۔ اس روایت میں ابوسفیان کا قول ہے: ’’میں چاہتا تھا کہ ہرقل قیصر روم کے سامنے کوئی ایسی بات کروں، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیصر روم کی نظروں میں گرجائیں، مگر مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرے جھوٹ کی گرفت کرے اور میری تمام باتوں کو جھٹلادے۔ اس طرح میں لوگوں میں بدنام ہو جاؤں اور میری سرداری پر دھبہ آئے‘‘۔ ابوسفیان نے کہا ’’میں اسی فکر میں تھا کہ مجھے شب معراج کے بارے میں آپﷺ کا قول یاد آگیا، میں نے فوراً کہا ’’اے بادشاہ! (قیصر روم) کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جسے سن کر (معاذ اللہ!) تو ان کے جھوٹا ہونے کو پہچان لے‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’وہ کیا بات ہے؟‘‘۔ ابوسفیان نے جواب دیا ’’ان کا کہنا ہے کہ میں ایک رات میں ارض حرم (مسجد بیت الحرام) سے چلا اور ایلیاء (بیت المقدس) کی مسجد اقصیٰ میں آیا اور اسی رات صبح سے پہلے مکہ واپس پہنچ گیا‘‘۔ ابوسفیان نے کہا کہ ’’جس وقت میں یہ بات کر رہا تھا، اس وقت عیسائیوں کا پیشوا جو مسجد اقصیٰ بڑا پادری تھا، قیصر روم کے پاس کھڑا تھا۔ بیت المقدس کے اس بطریق نے کہا ’’مجھے اس رات کا علم ہے‘‘۔ بادشاہ نے کہا کہ ’’تجھے کیا علم ہے؟‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’میری عادت ہے کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا ہوں۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کردیئے، لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا اور ساری قوت صرف کردی، مگر وہ دروازہ نہ ہلا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا، انھوں نے اسے دیکھ کر کہا ’’(ایسا معلوم ہوتا ہے) کہ اوپر کی عمارت نیچے آگئی ہے اور دروازہ کی چھاؤں (اوپر کی چوکھٹ) کا اس پر دباؤ پڑ گیا ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہوسکتا، صبح دیکھیں گے کس طرف سے یہ خرابی واقع ہوئی ہے‘‘۔ بطریق نے کہا ’’درواٖزہ کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑکر ہم لوگ واپس چلے گئے، صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد کا دروازہ بالکل ٹھیک ہے۔ گوشہ مسجد کے پتھر میں سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آرہا ہے۔ (یہ منظر دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج رات انتہائی کوشش کے باوجود دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا، پھر اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں) میں نے اپنے ہمراہیوں سے کہا آج رات اس دروازہ کا کھلا رہنا صرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا، یقیناً اس نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی‘‘۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد۳، صفحہ۶۴) (اقتباس)