ریاض:جانکاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عربیہ اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی نزدیکوں کے سبب سلطنت کے 31ولیعہد کے انتخاب میں کافی مدد ملی ہے۔ کنگ سلمان جن کی عمر اب 81سال کی ہوگئی ہے ایک روز قبل ہی محمد بن سلمان کا نام بطور ولیعہد پیش کیا اور تخت پروارث محمد بن نائف کو ہٹادیا جو انسداد ہشت گردی کے ماہر ہونے کی وجہہ سے پچھلے امریکی انتظامیہ کے قریبی مانے جاتے تھے۔
پچھلے دوسالوں سے محمد بن سلمان57سینئر قانون نافذ کرنے والے جوولیعہد اور وزیر داخلہ دونوں عہدوں پر فائز محمد بن نائف کے اخراجات پر وسیع طاقت جمع کررہے تھے۔پیرس میں پی او یونیورسٹی کے اسوسیٹ پروفیسر سائنس اسٹیفن لاکرویکس نے کہاکہ محمد بن سلمان اپنے انتظامیہ سے دور تھے مگر محمد بن نائف بارک اوباما کے سابق امریکی انتظامیہ میں کافی مقبول تھے۔انہوں نے کہاکہ ’’ یہ تمام چیزیں ٹرمپ کے اقتدار میں انے کے بعد تبدیل ہوگئی‘‘۔
لاکرویکس نے کہاکہ جنوری میں ٹرمپ نے دفتر میں جائزہ حاصل کرنے کے بعد یہ بات واضح کردی تھی کہ خلیج میں ان کے ساتھی محمد بن سلمان ‘ ابوظہبی میں شیخ محمد بن زاہد النہیان اور مصر میں عبدالفتح السیسی ہونگے۔ایران کے متعلق ٹرمپ کے مزید جارحانہ رخ کا ریاض نے خیرمقدم کیا‘ جس سے سعودی عرب کے داخلے معاملات کو خطرات درپیش ہیں۔محمد بن سلمان او ر ٹرمپ کا شاہی استقبال کیا۔
اپنی تقریر کے دوران ٹرمپ نے ساری دنیا میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے تمام کو ریاض میں جمع ہونے پر زوردیا۔ ٹرمپ نے ان تمام کا صرف ایران کوقصور بھی ٹھرایاتھا۔سفارتکاروں اور جانکاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے نکتہ نظر پر ہی محمد بن سلمان اور ابوظہبی کے ولیعہد نے خلیج کے پڑوسی قطر سے اپنے تعلقات منقطع کرلئے۔ انہوں نے دوحہ پر کچھ گروپس اور ایران کی مدد کا الزام عائد کیا جس کا مقصد ’’خطہ میں امن کی بحالی ‘‘ تھا۔
لاکرویکس نے کہاکہ ’’ میں سمجھتا ہوں ٹرمپ کا اثر زور شور سے کام کررہا ہے‘‘۔ چہارشنبہ کے روز ٹرمپ نے نئے ولیعہد کو ان کے انتخاب پربذریعہ فون مبارکباد پیش کی۔لندن کی ایک یونیورسٹی پروفیسر کریگ نے کہاکہ واشنگٹن کے لئے یہ اشارہ ہے کہ سلطنت اصلاحات چاہتی ہے’’ اور وہ ٹرمپ انتظامیہ کی سب سے بہترین دوست بھی ہے‘‘جو ایران اور اسلامک اسٹیٹ گروپ دونوں کے مخالف ہے۔