’’سعودی عرب کو 2000 سال تک کوئی خطرہ نہیں ‘‘

سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے بلومبرگ کے انٹرویو کے اقتباسات

امریکہ کے بغیر بھی سعودی عرب کا وجود رہا ہے

ریاض ۔6 اکتوبر۔(سیاست ڈاٹ کام) بلومبرگ کے سینئر ایگزیکٹیو ایڈیٹر برائے معاشیات اسٹیفانی فلینڈرس اور بلومبرگ کے دیگر پانچ صحافیوں نے ریاض میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان سے شاہی محل میں بات چیت کی جس میں مختلف موضوعات کااحاطہ کیا گیا جیسے محمد بن سلمان کے ٹرمپ سے تعلقات ، آرامکو کے لئے عہد کی پابندی ، سافٹ بینک میں مزید 45 بلین ڈالرس کی سرمایہ کاری کا منصوبہ ، انرجی مارکیٹس اور حالیہ دنوں میں مملکت میں کی گئی گرفتاریاں وغیرہ ۔ ذیل میں انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں ۔
بلومبرگ: امریکی صدر ٹرمپ نے انتباہ دیا ہے کہ سعودی عرب امریکی فوج کے بغیر صرف دو ہفتوں تک ہی اقتدار پر رہ سکتا ہے ؟
محمد بن سلمان : سعودی عرب کا وجود اُس وقت سے ہے جب امریکہ بھی نہیں تھا ۔ میرا ایقان ہے کہ سعودی عرب 1744 ء سے عالمی نقشہ پر موجود ہے جو امریکہ سے 30 سال قبل کی بات ہے ۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ اگر کوئی میری بات کو غلط سمجھے ۔ امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے اپنے آٹھ سالوں کے اقتدار کے دوران بہت سے کام سعودی عرب کے ایجنڈہ کے مخالف کئے ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف سعودی عرب میں ایسا ہوا بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی ہوا ۔ حالانکہ امریکہ ہمارے ایجنڈہ کے مخالف کام کرتے رہا لیکن ہم نے اپنے مفاد کاتحفظ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں کامیابی ملی اور اوباما کی قیادت میں امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ، مثلاً مصر میں ۔ لہذا سعودی عرب کو کوئی خطرہ اگر لاحق ہو بھی سکتا ہے تو اس کیلئے 2000 سال درکار ہوں گے تو پھر ٹرمپ نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ درست نہیں ۔
بلومبرگ: تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ آپ کے والد کے بارے میں کچھ بھی اناپ شناپ کہیں اُس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ؟ امریکہ کے بغیر بھی سعودی عرب کا وجود رہا ہے ۔
محمد بن سلمان :یہ تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ اگر آپ کا کوئی دوست ہے تو وہ آپ سے اچھی بات بھی کرے گا اور بُری بات بھی ۔ آپ کے دوست آپ سے 100% اچھی بات ہی کہیں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ ہمارے عام خاندانوں میں بھی کسی بات کو لیکر غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں لہذا اُنھیں درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
بلومبرگ: ہمارا خیال ہے کینیڈا اور جرمنی بھی آپ کے دوست تھے ۔ کیا انھوں نے کچھ کم سختی دکھائی ہے ؟
محمد بن سلمان : یہ ایک بالکل مختلف پہلو ہے ۔ کینیڈا نے سعودی عرب کے داخلی معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہوئے حکم دینا شروع کردیا تھا ۔لہذا یہ ایک بالکل علحدہ معاملہ ہے۔ ٹرمپ امریکہ میں اپنی ہی عوام کے سامنے کسی معاملہ پر اپنے خیال کا اظہار کررہے تھے ۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا ۔
بلومبرگ: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا یہ خیال ہے کہ سعودی مملکت کو اپنی سکیورٹی کے لئے زائد رقومات ادا کرنی چاہئے ۔ کیاآپ اس بات سے متفق ہیں؟
محمد بن سلمان : حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی سکیورٹی کیلئے کوئی رقم نہیں دیں گے ۔ہم نے امریکہ سے جو بھی ہتھیارات حاصل کئے ہیں اُن سب کی قیمت ادا کی جاچکی ہے ، یہ مفت میں دیئے گئے ہتھیار نہیں ہیں۔ جب سے سعودی اور امریکہ کے تعلقات کو فروغ حاصل ہوا ہے ہر زمانے میں امریکہ کو ہتھیاروں کی قیمت ادا کی گئی ہے ۔ صرف دو سال قبل ہماری یہ حکمت عملی بھی تھی کہ ہم اپنے ہتھیار دیگر ممالک سے بھی حاصل کریں لیکن جب سے ٹرمپ اقتدار پر آئے ہیں ، ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی ہتھیاروں کی ضرورت کا 60%امریکہ سے خریدیں گے اور اس حکمت عملی کو ہم نے دس سالوں کیلئے لاگو کیا ہے۔
بلومبرگ: اب ایک اور بڑے سودے کی جانب آتے ہیں جس کے بارے میں جاننے کیلئے ہمارے دیگر ساتھی (صحافی) بھی بے چین ہیں اور وہ ہے آرامکو کے شیئر کے بارے میں ۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس معاملہ کو کس طرح قطعیت دی جائے گی ؟
محمد بن سلمان : سب نے یہ افواہ سنی ہے کہ سعودی آرامکو کا آئی پی او منسوخ کررہاہے اور اِسے دراصل ویژن 2030 ء کو بھی تاخیر کا شکار کرنے کی کوشش کہا جارہا ہے ۔ آج آرامکو کہاں ہے ؟ 2017 ء کے وسط میں ایک تنازعہ پیدا ہوا تھا کہ آرامکو کا مستقبل کیا ہے ؟ یہ تیل کی پیداوار کرتا ہے اور اُس کے کچھ پراجکٹس پستی کا بھی شکار ہیں لہذا آج سے 20، 30 یا 40 سال بعد اگر ہم آرامکو کے روشن مستقبل کی اُمید کرتے ہیں تو اس کیلئے آرامکو کو اپنے پستی کا شکار پراجکٹس میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت پیش آئے گی جس میں پٹروکیمیکلز انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا ۔ آج بھی پٹروکیمیکلز کی طلب میں ہرروز 2 تا 3% کا اضافہ ہورہا ہے لہذا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آرامکو کا مستقبل اب اُس کے پستی کا شکار پراجکٹس پر منحصر ہے اور اُسے اُن پراجکٹس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی ۔
بلومبرگ: تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آئی پی او قطعی طورپر ملک کے مفاد میں ہے؟
محمد بن سلمان : بے شک ، صد فیصد
بلومبرگ: کیا 2020، 2021 تک ؟
محمد بن سلمان : میرا خیال ہے کہ 2020 کے اواخر یا 2021ء کے اوائل تک۔
بلومبرگ: کیا آپ مکمل طورپر 5% کی سرمایہ کاری کریں گے کیونکہ آپ نے 100 بلین ڈالرس کی بات کہی ہے ۔
محمد بن سلمان : جی بالکل !
بلومبرگ: کیا آپ اب بھی دو کھرب ڈالرس کی حمایت کریں گے ؟ کیونکہ اس کیلئے کچھ پس و پیش کااظہار بھی کیا گیا ہے ؟
محمد بن سلمان : یہ ہم بعد میں دیکھیں گے ۔ قطعی فیصلہ تو تمام سرمایہ کاروں کو کرنا ہے ۔
بلومبرگ: کیا آپ نے کبھی ’’ٹیسلا‘‘ کار چلائی ہے ؟
محمد بن سلمان : نہیں کبھی نہیں چلائی ۔ ٹیسیلا میں صرف ایک بار اُردن کے شاہ عبداللہ کے ساتھ سواری کی ہے ۔ شاہ عبداللہ اس کار کو زیادہ تر لاس اینجلس میں چلاتے ہیں۔ میں نے آج تک ٹیسلا کار نہیں چلائی ۔ میری بڑی خواہش ہے ۔ اِسے چلانے والے کہتے ہیں کہ یہ ایک بہترین کار ہے ۔
بلومبرگ: کیا آپ نے کبھی ایلن موسک سے ملاقات کی ہے ؟
محمد بن سلمان : جی نہیں !
بلومبرگ: کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ٹیسلا کارسازی میں سرمایہ کاری کرنا ایک احمقانہ حرکت ہوگی کیونکہ یہ بیحد مہنگی کار ہے اور اس صنعت کو چلانے والے کو بھی ’’سنکی ‘‘ کہا جاتا ہے ؟
محمد بن سلمان : میں اگر یہ کہوں کہ اس صنعت میں (ٹیسلا) سرمایہ کاری کرنا پُرخطر ہے تو اس سے تنازعہ بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔
بلومبرگ: یہ جمال خشوگی کا کیا قصہ ہے ؟
محمد بن سلمان : ہم نے بھی اب تک صرف افواہیں سنی ہیں۔ وہ ایک سعودی شہری ہے اور ہم بھی اُس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ آخر اُس کے ساتھ کیا ہوا؟ ہم حکومت ترکی سے بات چیت کاسلسلہ جاری رکھیں گے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ جمال خشوگی کے ساتھ کیا ہوا ؟