سعودی عرب میں تارکین وطن کیلئے 8 سال قیام کی حد زیرغور

ہندوستانی برادری زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ،تارک وطن کارکنوں کے علاوہ سعودی شہری بھی تجویز کے مخالف

ریاض ، 7 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) مملکت سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے ملک میں مقیم غیر ملکی کارکنوں کے قیام کی اعظم ترین مدت 8 سال مقرر کئے جانے کا امکان ہے۔ ملازمتوں کی فراہمی کیلئے ایک قانون کی تجویز پیش کی گئی ہے جس کے تحت غیر ملکی ورکرز کو سعودی عرب میں زیادہ سے زیادہ آٹھ سال قیام کی اجازت ہوگی۔اس قانون سے امکان ہے کہ ہندوستانی کارکنوں کی کثیر تعداد متاثر ہوگی۔ مجوزہ قانون مدون کرنے کیلئے مختلف نئی تجاویز پر تفصیل سے غور کیا جارہا ہے تاکہ نطاقہ قانون کو توسیع دی جاسکے اور مملکت سعودی عرب میں بیرونی کارکنوں کی کثیر تعداد میں کمی کی جاسکے ۔ حکومت سعودی عرب چاہتی ہے کہ سعودی شہریوں کیلئے ملازمتوں کے زیادہ مواقع اور زیادہ تنخواہیں دستیاب ہوسکیں۔ سعودی عرب میں اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ مقیم ایک غیر ملکی کارکن نے کہا کہ مجوزہ نظام کے تحت اسے اور اس کی بیوی دونوں کو غیر قانونی کارکن قرار دیا جائے گا ۔

روزنامہ ’عرب نیوز‘ کے بموجب سعودی عرب میں غیر ملکی کارکنوں کے قیام کی اعظم ترین مدت 8 سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے ایسے کارکن بھی متاثر ہوں گے جن کا قبل ازیں ملک سے خروج ناممکن تھا جیسے پاکستانی شہری ۔ایک تارک وطن کارکن جو قمری تقویم کے لحاظ سے سعودی عرب میں چار سال قیام کی مدت مکمل کرچکا ہے، نطاقہ نظام کے تحت پانچویں سال وزارت کی جانب سے اسے کام کا پرمٹ جاری کرنے سے پہلے غور کیا جائے گا ۔ جو افراد پانچ سال مکمل کرچکے ہوں گے اور جو چھ سال سے سعودی عرب میں ملازم ہوں گے، اُن کے کام کے پرمٹ بھی جاری کرنے سے پہلے از سر نو غور کیا جائے گا ۔ آٹھ سال کی تکمیل پر انہیں کام کا پرمٹ دوبارہ نہیں ملے گا ۔ نیا قانون اس جائزے کی بنیاد پر تجویز کیا گیا ہے جس میں غیر ہنرمند کارکن جو سعودی عرب میں ماہر کارکنوں کی بہ نسبت زیادہ مدت سے مقیم ہیں، اُن کے اخراج کا انتظام کیا جائے ۔ خبر کے بموجب کئی سعودی شہری اور تارکین وطن کارکن بھی اس تجویز کے مخالف ہیں ۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس سے غیر ملکی ماہرین کی مملکت سعودیہ میں کام کرنے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اس سے سعودی عرب کی تجارت پر منفی اثر مرتب ہوگا ۔ نائب صدر و منیجنگ ڈائرکٹر سیاحتی گروپ رفیق یونس نے کہا کہ وزارت کو ایسے فیصلوں سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اس سے تاجر طبقہ اور سرمایہ کاروں کو غلط پیغام پہنچے گا ۔ محنت کے نئے قواعد سے پہلے ہی منافع بخش تجارت متاثر ہوچکی ہے ۔ نئی محنت پالیسی ’نطاقہ‘ سعودی عرب کے ان اقدامات میں شامل تھی جن کے ذریعہ مقامی شہریوں کیلئے ملازمتوں کے زیادہ مواقع فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت ملازمتوں کے جملہ مواقع کا 10 فیصد مقامی شہریوں کیلئے مختص کرنے کا لزوم چھوٹے اور اوسط درجے کے تجارتی اداروں پر بھی لازم قرار دیا گیا ۔ 10 فیصد جائیدادیں سعودی شہریوں کیلئے مختص کی گئی تھیں ۔ مجوزہ قانون سے کثیر تعداد میں ہندوستانی شہریوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے ۔ سعودی عرب میں 28 لاکھ ہندوستانی سب سے بڑی تارک وطن برادری ہیں۔