ریاض، 2 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب میں دہشت گردی کے الزامات جرم کے مرتکب 47 قیدیوں کو آج سزائے موت دی گئی جن میں سرکردہ شیعہ عالم دین بھی ہیں جو 2011ء کے دوران تیل کی دولت سے مالا مال اس مملکت میں ’بہارِ عرب‘ سے متاثرہ احتجاجی تحریک کی سرکردہ شخصیت تھے۔
شیخ نمر النمر کی ہلاکت سے سعودی عرب کے مشرقی علاقہ میں آباد شیعہ اقلیت میں تازہ بے چینی پیدا ہو سکتی ہے ۔ بحرین میں 2011 ء میں سنی شاہی حکومت کے خلاف شیعہ اکثریت نے معمولی سطح پر احتجاج کیا تھا ۔ سرکاری خبر رساں ادارہ ’سعودی پریس ایجنسی‘ نے وزارت اطلاعات کے حوالے سے سزائے موت پانے والے 47 افراد کی فہرست میں شیعہ عالم دین کے نام کا بھی ذکر کیا ہے ۔ سعودی عرب میں آج جن 47 افراد کے سرقلم کئے گئے، ان میں 45 سعودی شہریوں کے علاوہ چاڈ کا ایک شہری ہے اور دوسرے کا تعلق مصر سے ہے ۔ سعودی عرب نے کہا کہ تمام کی اپیلیں مسترد کئے جانے کے بعد شاہی دیوان نے سزائے موت پر تعمیل کا حکم دیا تھا ۔ جس کے بعد دارالحکومت ریاض اور دیگر 12 شہروں میں موت کی سزاؤں پر تعمیل کی گئی ۔ شیخ النمر بحرین کی سنی زیرقیادت شاہی حکومت کے کٹر ناقد تھے جس (شاہی حکومت) نے 2011 ء میں شیعہ احتجاج کو سختی سے کچل دیا تھا ۔ سعودی عرب نے بے چینی کی لہر پھیل جانے کے اندیشوں کے پیش نظر اس احتجاج کو کچلنے میں بحرین کی مدد کی تھی ۔ شیخ النمر نے 2012 ء میں اپنی گرفتاری سے قبل کہا تھا کہ عوام ایسے حکمراں نہیں چاہتے جو احتجاجیوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں اور انہیں ہلاک کرتے ہیں ۔ دوران مقدمہ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ آیا وہ اپنے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں ؟ ۔ انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’اگر مشرق میں شیعہ افراد کے خلاف ناانصافی ختم کی جاتی ہے (تو اس نکتہ پر) میرا نظریہ مختلف ہوسکتا ہے ‘‘ ۔ شیخ نمر نے اپنے خلاف عائد سیاسی الزامات کو کبھی بھی مسترد نہیں کیا لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے ساتھ اسلحہ نہیں رکھا تھا اور نہ ہی کسی کو کبھی تشدد پر اکسایا تھا ۔ سزائے موت کے فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے تمام مہلوکین کو دکھایا گیا ۔ نمر اس فہرست میں 46 ویں مقام پر دکھائے گئے ۔ سیاہ و سفید داڑھی والے نمر جو سعودی شہریوں کے روایتی سرخ و سفید غطرہ اوڑھے ہوئے تھے اور اس موقع پر بالکل ساکت نظر آئے۔ سزائے موت پر تعمیل کے بعد سرکاری سعودی ٹیلی ویژن پر مملکت میں ہوئے کئی دہشت گرد حملوں کے سیاہ و سفید فوٹیج دکھائے گئے ، جن میں ایک مسجد پر حملہ کا وہ منظر بھی دکھایا گیا جہاں نعشیں بکھری پڑی تھیں ۔ سعودی عرب میں 2015 ء کے دوران 157 افراد کے سرقلم کئے گئے یا فائرنگ اسکواڈ کے ذریعہ گولی ماردی گئی ۔ یہ تعداد گزشتہ 20 سال کے دوران سب سے زیادہ رہی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شیخ نمر النمر کا سر قلم کرنے کی مذمت کی اور کہا کہ ’’یہ سزا دراصل ہر قسم کی ناراضگی کو کچلنے کیلئے سعودی حکام کی مہم کا ایک حصہ ہے ‘‘ ۔ نمر کی سزائے موت پر تعمیل کی اطلاع کے ساتھ ہی عراق میں غم و غصہ کی لہر دوڑگئی اور چند قائدین نے بغداد میں سعودی عرب کے اس سفارتخانہ کو دوبارہ بند کردینے کا مطالبہ کیا ہے جو 1991 ء سے بند رہنے کے بعد حال ہی دوبارہ کھولا گیا ہے ۔ نمر کے بھائی محمد النمر نے خبردار کیا ہے کہ شیخ نمر کی موت سے اقلیتی نوجوانوں میں برہمی پیدا ہوسکتی ہے ۔ محمد النمر نے کہا کہ ’’شہید شیخ نمر کی طرح ہم بھی تشدد اور حکام سے تصادم کے نظریہ کو مسترد کرتے ہیں ‘‘ ۔
سعودی عرب کو بھاری قیمت چکانی ہوگی : ایران
تہران ، 2 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ایران کی وزارت خارجہ نے آج کہا کہ سرکردہ شیعہ عالم دین نمر النمر کو سزائے موت پر تعمیل کی سعودی عرب کوبھاری قیمت چکانی ہوگی ۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری نے سعودی شیعہ عالم کا سر قلم کئے جانے کی پُرزور مذمت کی جبکہ شیعہ اکثریتی ایران نے سنی زیراقتدار حریف مملکت سے اس عالم دین کو معاف کرنے کی کئی مرتبہ خواہش کی تھی ۔ جابر انصاری کے حوالہ سے سرکاری خبر رساں ادارہ اِرنا نے کہا کہ ’’ سعودی حکومت ، انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی تائید و مدد کیا کرتی ہے لیکن اندرون ملک اپنے ناقدین پر ظلم اور سزائے موت پر عمل کرتی ہے ۔