بدعنوانیوں میں ملوث عہدیداروں کو بچانے اعلیٰ آفیسرس سرگرم ، محکمہ تعلیم میں ملی بھگت
حیدرآباد۔ 2 فروری (سیاست نیوز) سروا سکھشا ابھیان کے تحت مدارس کے فنڈ میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں میں ملوث بعض عہدیداروں کو اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسکام کی تحقیقات میں قصوروار پائے گئے حیدرآباد کے سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشنل آفیسر سومی ریڈی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے سے متعلق ضلع کلکٹر کی ہدایت کو جوائنٹ ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کی جانب سے بے خاطر کرتے ہوئے سومی ریڈی کو بچانے اور ان کی ترقی میں تعاون کی کوشش کی جارہی ہے۔ سرکاری محکمہ جات میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر اعلیٰ عہدیدار کسی ماتحت پر مہربان ہوں تو اس کے خلاف لاکھ شکایتوں اور تحقیقات میں قصوروار ثابت ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح تحفظ کیا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم میں عہدیداروں کی ملی بھگت کے سبب نہ صرف سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشنل آفیسر کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، بلکہ سروا سکھشا ابھیان میں ملوث بعض دینی مدارس کے ذمہ داروں کی بھی سرپرستی کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کلکٹر حیدرآباد جو سروا سکھشا ابھیان کے حیدرآباد چیاپٹر کے صدر ہیں، انہوں نے 19 جنوری کو حکومت اور ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن جی کشن کو مکتوب روانہ کیا جس میں ڈی ای او سومی ریڈی اور دیگر ملزمین کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی۔ ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن جی کشن سروا سکھشا ابھیان کے ریاستی پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کلکٹر کے مکتوب کے بعد کشن نے اپنے ریمارکس حکومت کو روانہ کئے جس میں 2008ء سے ’’مدرسہ اسکینڈل‘‘ کی ویجیلنس اینڈ انفورسمنٹ سے جامع تحقیقات کی سفارش کی گئی۔ انہوں نے جوائنٹ ڈائریکٹر سرویسیس سری ہری کو ہدایت دی کہ سومی ریڈی اور دوسروں کے خلاف کریمنل کیس درج کیا جائے۔ فوجداری مقدمہ، رقم میں بڑے پیمانے پر تغلب سے متعلق داخلی تحقیقات پر مبنی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈی ایس ای و ایس پی ڈی نے ایک ہفتہ قبل اس فائیل پر دستخط کئے، لیکن سری ہری فائیل کو منظوری دینے سے گریز کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سومی ریڈی کی ایماء پر کام کرنے والے بااثر افراد فائیل کے کلیرنس میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔ سروا سکھشا ابھیان اسکام کے سلسلے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی بھی اعلیٰ عہدیداروں نے کارروائی کے سلسلے میں ہدایات جاری کیں، تو نچلی سطح پر یا تو تاخیر کی گئی یا سومی ریڈی اور ان کے حواری ملازمین کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق اعلیٰ عہدیداروں کی ہدایات کو نظرانداز کرنے اور خاطی عہدیداروں کو بچانے کا مقصد یہ ہے کہ سابق ڈی ای او سومی ریڈی جلد سے جلد جوائنٹ ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کے عہدہ پر ترقی حاصل کرلیں۔ ذرائع نے بتایا کہ نہ صرف محکمہ تعلیم کے عہدیدار بلکہ سنٹرل کرائم اسٹیشن (سی سی ایس) کے بعض عہدیدار بھی جنہیں تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی، وہ سومی ریڈی کی مدد کررہے ہیں۔ ایک مدرسہ کے ناظم کی شکایت پر اسکام میں بے قاعدگیوں کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اسکام کے اہم ملزم محمد زبیر نے اپنے اقبالی بیان میں کہا تھا کہ اس نے سروا سکھشا ابھیان میں سومی ریڈی کے دو ایجنٹس یوگیندر کمار، نصیرالدین کو فی کس 50,000 روپئے دیئے ہیں۔ یہ دونوں جونیر اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اہم ملزم کے اقبالی بیان کے باوجود بتایا جاتا ہے کہ تحقیقاتی عہدیدار نے سومی ریڈی کے ایجنٹس کو کھلا چھوڑ دیا۔ نصیرالدین بتایا جاتا ہے کہ 2012ء تا 2014ء سروا سکھشا ابھیان میں مدرسہ سیکشن سے وابستہ تھا جبکہ یوگیندر 2015-16ء کے دوران اس سیکشن کا انچارج رہا۔ زبیر کے بیان کے مطابق دونوں نے رشوت حاصل کی تھی۔ سروا سکھشا ابھیان کی داخلی تحقیقات میں بھی یہ دونوں قصوروار پائے گئے تھے، اس کے باوجود انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ سومی ریڈی ان کا بچاؤ کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اسکام کے ایک اور ملزم مفتی مستان جو اسلامیہ بوائز ہائی اسکول میں گورنمنٹ ایڈیڈ ٹیچر ہیں، انہوں نے زبیر سے ایک لاکھ روپئے کی رشوت حاصل کی تھی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اسکام میں تعاون کرتے ہوئے اس قدر بھاری رقم حاصل کرنے کے باوجود تحقیقاتی عہدیدار رویندر ریڈی نے مفتی مستان کو گرفتار نہیں کیا اور یہ عذر پیش کیا گیا کہ وہ مفرور ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مفتی مستان ، اسکول میں روزانہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن تحقیقاتی افسر نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر گرفتار کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر ملزمین نصیرالدین، یوگیندر اور مفتی مستان کو گرفتار کیا گیا تو سابق ڈی ای او سومی ریڈی بری طرح پھنس سکتے ہیں، کیونکہ وہ اسکینڈل میں ان کے رول اور حصہ داری کو واضح کردیں گے۔