سرحد کے مؤثر انتظامات کیلئے ہند۔ چین مذاکرات

وزیراعظم ہند اور صدر چین کی چوٹی کانفرنس کے بعد باہمی تبادلوں میں اضافہ، تنازعات درکار
بیجنگ 27 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان اور چین نے آج ایک اجلاس منعقد کیا جس میں سرحد کے نظام پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے باہمی اعتماد میں اضافہ کرنے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔ یہ مشاورتی اور تعاون کی برائے ہند ۔ چین سرحدی اُمور کارگذار میکانزم کا بارہواں اجلاس تھا جو چین کے شہر چینگڑو سیچوان میں منعقد کیا گیا۔ ہندوستانی سفارت خانے کے بیان کے بموجب ڈبلیو ایم سی سی 2012 ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک ادارہ جاتی نظام ہے جس کا مقصد ہندوستان اور چین کے سرحدی علاقوں میں انتظامیہ کے سلسلہ میں باہمی تعاون اور مشاورت ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اِس نظام کے تحت اجلاس میں باہم مشاورت کریں گے۔ آج کا اجلاس تیز رفتار فوجی تبادلوں کے سلسلہ میں تھا۔ دونوں ممالک نے وزیراعظم نریندر مودی اور صدر چین ژی جن پنگ کی رسمی چوٹی کانفرنس کے بعد گزشتہ سال کی ڈوکلم میں 73 روزہ صف آرائی کو پس پشت رکھ دیا ہے۔ آج کے اجلاس میں دونوں ممالک نے ہند ۔ چین سرحدی علاقوں کی صورتحال کا جائزہ لیا اور سرحدی علاقوں کے مؤثر انتظام پر غور و خوض کیا گیا جو دفاعی رہنمایانہ خطوط کے مطابق تھا جو دونوں ممالک کے قائدین نے فراہم کئے ہیں۔ دونوں ممالک نے مختلف بحالیٔ اعتماد اقدامات کا بھی پتہ چلایا جس کا مقصد باہمی اعتماد اور مفاہمت میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ ہندوستان نے پرزور انداز میں کہاکہ امن اور خیرسگالی ہندوستان اور چین کے سرحدی علاقوں میں اہمیت رکھتی ہے اور اپنے باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے انتہائی اہم ہے۔ ہندوستان اور چین کی 3,488 کیلو میٹر طویل مشترکہ سرحد خطہ حقیقی قبضہ پر مؤثر انتظامات کا تقاضہ کرتی ہے۔ تاحال دونوں ممالک کے خصوصی نمائندوں کی بات چیت کے 20 دور ہوچکے ہیں۔ جس میں سرحدی تنازعات پر غور کیا گیا۔ جاریہ سال 21 واں دور لازمی تھا۔ ڈبلیو ایم سی سی نظام کے صدر سینئر عہدیداروں نے دونوں ممالک کے لئے باہمی نکات نظر کے تبادلے اور مواصلات کے استحکام کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ سرحدی محافظین ارکان عملہ نے اپنے اجلاس سے قبل سفیر ہند برائے چین گوتم بامباوالے سے ملاقات کی تھی اور اُنھوں نے کہاکہ اوہان چوٹی کانفرنس کے بعد دونوں ممالک کے باہمی تبادلوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ فوجی باہمی تبادلے زیادہ تیز رفتار ہوگئے ہیں۔ فوجی کمانڈرس ایک دوسرے سے بے لاگ بات چیت کررہے ہیں۔