سراپا رحمت صلی اللہ علیہ وسلم

حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شخص کو سفر کے دوران سخت پیاس لگی، ایک کنواں نظر آیا، وہ اس میں اتر گیا۔ جب باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے سوچا پیاس سے میرا برا حال تھا، یہی حال اس کتے کا بھی ہے۔ وہ پھر کنویں میں اترا، اپنے چمڑے کے موزے کو پانی سے بھرا، پھر اپنے دانتوں سے دباکر اوپر آگیا اور وہ پانی کتے کو پلایا۔ اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کو قبول فرمالیا اور اس کی مغفرت فرمادی‘‘۔ لوگوں کو حیرت ہوئی اور پوچھا: ’’یارسول اللہ! کیا جانوروں کے معاملے میں بھی اجر ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! ہر اس مخلوق میں جو تروتازہ جگر رکھتی ہو، اجر ہے‘‘۔
ایک اور موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت کو صرف اس بات پر عذاب دیا گیا کہ اس نے اپنی بلی کو کھانا پانی نہیں دیا اور نہ چھوڑا کہ وہ حشرات الارض سے اپنا پیٹ بھرلیتی۔ ایک اور موقع پر فرمایا: جانوروں کے معاملے میں اللہ سے خوف کرو، ان پر سواری کرو تو اچھی طرح کرو، ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت استعمال کرو تو اس حالت میں کرو کہ وہ اچھی حالت میں ہوں۔ ایک اونٹ نے آپﷺ کو دیکھا تو بلبلانے لگا، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کے قریب تشریف لائے، اس کے کوہان اور کنپٹیوں پر اپنا دست مبارک رکھا تو اس کو سکون ہوگیا۔ پھر آپﷺ نے پوچھا: ’’اس کا مالک کون ہے؟‘‘۔ ایک انصاری نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا: ’’یارسول اللہ! یہ میرا اونٹ ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس جانور کے بارے میں کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے، جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے۔ یہ مجھ سے شکایت کر رہا تھا کہ تم اس کو تکلیف دیتے ہو اور ہر وقت کام میں لگائے رکھتے ہو‘‘۔

دوران سفر بعض صحابہ کرام نے ایک چڑیا کے دو بچے اٹھا لئے۔ چڑیا پھڑ پھڑانے لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو چڑیا کو دیکھ کر پوچھا: ’’کسی نے اس کے بچے چھین کر اس کو تکلیف پہنچائی ہے؟‘‘۔ پھر آپﷺ نے حکم دیا کہ ’’اس کے بچے اس کو واپس کردو‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم، نوکر چاکر اور مزدوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی اور فرمایا: ’’جو تم کھاتے ہو وہی ان کو کھلاؤ، جو تم پہنتے ہو وہی ان کو پہناؤ۔ اللہ کی مخلوق کو عذاب میں مبتلا نہ کرو، جن کو اللہ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، یہ تمہارے بھائی، خادم اور مددگار ہیں۔ جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو اس کو چاہئے کہ جو خود کھاتا ہے، وہی اس کو کھلائے، جو خود پہنتا ہے وہی اس کو پہنائے۔ ان کے سپرد کوئی ایسا کام نہ کرو، جو ان کی طاقت سے باہر ہو اور اگر ایسا کرنا ہی پڑے تو پھر ان کا ہاتھ بٹاؤ۔ ایک اعرابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’یارسول اللہ! میں اپنے نوکر کو دن میں کتنی مرتبہ معاف کروں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ستر مرتبہ‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ’’مزدور کو اس کی مزدوری، اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رافت و رحمت کا پیکر تھے۔ آپﷺ کی رحمت سب کے لئے عام تھی، جانور تک آپ کی رحمت سے محروم نہ تھے۔ یہ سیرت، یہ پاکیزہ اوصاف کیا ہمیں محبت کی دعوت نہیں دے رہے ہیں کہ ہم آپﷺ سے محبت کریں۔ خدا کے دنیا میں اور کون ہے؟ جو اس پیکر رحمت سے بڑھ کر محبت کا حقدار ہو؟۔ آپﷺ سب سے زیادہ محبت کے مستحق ہیں، غالب محبت صرف اور صرف آپ کا حق ہے۔
واضح رہے کہ محبت کا تیسرا سبب احسان ہے، یعنی کسی نے ہم پر کوئی احسان کیا ہو تو ہم اس کے ممنون ہوکر اس سے محبت کرتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احسانات بالخصوص ہم پر اور بالعموم ساری دنیا پر اتنے ہیں کہ ان کے تذکرہ کے لئے ایک دفتر چاہئے۔
تاریخ انسانی کے چھٹی صدی عیسوی کو پہنچنے تک دنیا نے عقل و شعور کے اعتبار سے بڑی ترقی کرلی تھی۔ انسانی دماغ اہرام مصرف بنا چکا تھا، ایلورا اجنتا کے غاروں میں ذہن انسانی کے شاہکار وجود میں آچکے تھے۔ توریت کی گرمی بھی دنیا میں آچکی تھی اور انجیل کی نرمی بھی اور زبور کی شاعری بھی۔ وید کی ذات پات کی تقسیم کا انسان تجربہ کرکے نتیجہ دیکھ چکا تھا۔ کنفیوشس کی تعلیمات دنیا میں پھیل کر سمٹ چکی تھی۔ بدھ موت کی روحانیت میں ترقی کے باوجود اس کو اپنے وطن سے ’’دیس نکالا‘‘ دیا چکا تھا۔ منو شاستر بھی لکھی جاچکی تھی، ارسطو کی ریطوریقا بھی ضبط تحریر میں آچکی تھی اور مہابھارت بھی قلم بند ہو چکی تھی۔ غرض مذہب، فنون لطیفہ، تعمیرات و ادبیات، صناعی و سیاسیات نے مقام عظمت کو چھولیا تھا۔

ان تمام کمالات کے باوجود انسانیت کا دامن اخلاقیات سے خالی تھا، فوح انسانی مضمحل تھی، باہمہ ذوق آگہی پستیٔ بشر مجسمۂ عبرت بن چکی تھی۔ انسان کو دیکھ کر حیوان شرما رہا تھا۔ ایرانیوں کو اپنے گورے رنگ پر اتنا فخر تھا کہ وہ اہل حبش اور اہل ہند کو کوّے کہا کرتے تھے۔ عربوں کو اپنی زبان دانی پر اتنا غرور تھا کہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کو گونگا کہتے تھے۔ ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا) کی اولاد ہونے کے باوجود ہندوستانیوں نے انسانی برادری کو چار طبقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ برہمن اپنے اوپر شودر کا سایہ پڑنا تک گوارا نہ کرتا تھا۔ علم و آگہی کی بخالت کا یہ عالم تھا کہ چھوٹی ذات کا ہندو کتاب مقدس کا پاٹ سن لیتا تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل کر اسے ہلاک کردیا جاتا تھا۔ پوری دنیا میں ہر طرف ظلم و تعدی اور وحشت و بربریت کا راج تھا۔ خدائے واحد کو بھلاکر یزداں کے خلیفہ نے ہزاروں دیوتاؤں اور دیویوں کے آگے اپنا سرنیاز ختم کردیا تھا۔ منادر میں تراشیدہ و ناتراشیدہ بت رکھے تھے، پجاری اتنے نہیں تھے، جتنے بتان آزری تھے۔ اخلاقیات کا بگاڑ عام تھا، انسانیت کا دامن تار تار ہوچکا تھا۔ غیر منصفانہ قوانین کا انبار تھا۔ عرب کے جاہل اپنی لخت جگر کو زندہ دفن کر رہے تھے۔ دور جاہلیت میں تمدن صرف بگڑا ہی نہیں تھا، بلکہ بدبودار ہو چکا تھا، اس سے عفونت کے بھپکے اٹھ رہے تھے۔ انسان نوع انسان کا شکاری بن گیا تھا، انتقام در انتقام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا تھا۔ ہر جھگڑا برسوں چلتا تھا اور جنگیں ایک ایک سو سال تک چلتی تھیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں پوری انسانیت خودکشی کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ یہ ایک یا دو قوموں کا انحطاط نہیں تھا، بلکہ پورا عالم انسانیت زوال کی گہری کھائی میں گرچکا تھا۔ انسانیت کی اس جاں کنی کے عالم میں حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور آپﷺ ساری دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے۔ (اقتباس)