سایۂ عاطفت اور آغوشِ رحمت کا فیضان

ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

جب کوئی دلیل انتہائی مضبوط اور قوی ہو تو دوسرے دلائل پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر کسی کو رحمت کردگار کی وسعتوں اور کشادگیوں کا اندازہ کرنا ہے تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو جائے۔ چوں کہ سیرت و شریعت خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ اور حکم مبنی بر رحمت ہے، گویا آپ کی ذات والا صفات ’’رحمتی وسعت کل شی ء‘‘ کی مظہر اتم ہے۔
حضرات سعید بن المرزبان سعید بن جبیر سے اور وہ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہم) سے روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تمام لوگوں کے لئے باعث رحمت ہے، جو آپ پر ایمان لائے وہ سعادت مندی اور خوش بختی کی نعمتوں سے مالا مال ہو گئے اور جو آپ کے لائے ہوئے دین کا انکار کرے وہ بھی خسف، قذف، مسخ اور غرق ہونے کے عذاب سے محفوظ ہو گئے، جیسا کہ امم سابقہ اپنے اپنے انبیاء کی نافرمانی کی پاداش میں اس طرح کے عذاب میں ماخوذ ہوا کرتی تھیں۔ (طبرانی، ابن حاتم، ابن کثیر، بیہقی وغیرہ)

حضرت سیدنا ابی امامہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے سارے جہان کے لئے رحمت اور متقین کے لئے ہدایت بناکر مبعوث فرمایا ہے (ابونعیم) حضرت سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ’’یارسول اللہ! آپ قریش کو لعن طعن کیوں نہیں فرماتے؟‘‘۔ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالی نے مجھے لعنت کرنے والا بناکر نہیں بلکہ رحمت بناکر مبعوث فرمایا ہے‘‘ (تفسیر الدر المنثور) حضرت سیدنا موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور مقفی (بعد میں آنے والا) اور حاشر ہوں اور نبی التوبہ و نبی الرحمۃ ہوں‘‘۔ (مسلم، احمد، مستدرک وغیرہ)

ہم جیسے پرخطا عاصیوں کے حق میں ایک نیکی کا ثواب دس گنا، باجماعت نماز ادا کرنے کا ثواب ستائیس گنا، مسجد نبوی میں ادا کی ہوئی نماز کا پچاس ہزار گنا، مسجد حرام میں ادا کی ہوئی نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا، رمضان المبارک میں نفل کا اجر فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض ادا کرنے کے برابر، شب قدر میں ادا کی جانے والی عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادتوں سے بہتر و افضل قرار پانا، صدقات و خیرات سے بلیات کا دُور ہونا، حج مبرور کے صلہ میں جنت کا ملنا جیسے بے پایاں رحمتوں کا حصول یہ سب غلامی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب اور نعلین پاک رحمۃ للعالمین کا صدقہ ہے۔

بعثت نبوی سے قبل پوری دنیا فتنہ و فساد اور ضلالت و گمراہی کے عمیق دلدل میں تھی۔ یہ اقلیم عدل و انصاف، کشور فضل و احسان آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ عاطفت اور آغوش رحمت کی تربیت کا ہی فیضان تھا کہ عرب کی انتہائی درشت مزاج قوم جو کبھی اونٹ کو زخم پہنچانے پر آپس میں چالیس سال تک برسر پیکار رہا کرتی تھی، یہی قوم قلیل عرصہ میں نہ صرف علوم و فنون میں ماہر ہو گئی، بلکہ علوم و فنون کی موجد بن گئی اور ساری دنیا کا نقشہ یکسر تبدیل ہو گیا۔ جو لوگ انسان ہونے کے باوجود انسانیت سے ناآشنا تھے، وہی آج رہبران قوم بن گئے۔ یہ سب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ترحمانہ انداز تبلیغ کا فیضان تھا اور لوگ جوق درجوق دامن اسلام سے وابستہ ہوتے چلے گئے اور تاقیام قیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

آج ساری روئے زمین وحشت و بربریت، ظلم و ستم اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ ہر سو بشریت و آدمیت خون کے آنسو رو رہی ہے، ہر سمت حیوانیت و شیطانیت کا ننگا ناچ ہو رہا ہے، جس کے باعث ذلت و رسوائی ہمارے پاؤں کی زنجیر بن چکی ہے۔ ناکامی و نامرادی ہمارا مقدر و نصیبہ بن چکا ہے اور ساری انسانیت مظلومیت کی ایسی کربناک داستان الم بنی ہوئی ہے، جو شاید پتھر کو بھی موم بنا دے۔ بحیثیت امت محمدی ہم پر لازم ہے کہ ہم انسانیت کو اس ذلت کے گڑھے سے نکال کر عظمتوں، رفعتوں اور فضیلتوں کے عرش پر بٹھانے کے لئے غلامی مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا ہمارے لئے اشد ضروری ہے۔ ہم اپنے نفوس کی خباثتوں اور اعمال کی برائیوں سے تائب ہوکر اور اپنے ضمیر کی اندرونی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی ذہنی، جسمانی اور مالی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پورے جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کے موافق مثبت تغیر و تبدل لے آئیں، تاکہ ارد گرد کا ماحول بھی پاکیزہ ہو جائے۔ چوں کہ مقصد حیات کی افہام و تفہیم میں گفتار سے زیادہ کردار اور قول سے زیادہ عمل انسان کو متاثر اور آمادۂ عمل کرنے میں انتہائی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔