بچو ! سدادن ایک سے نہیں رہتے کبھی سخت گرمی پڑتی ہے ۔ تر تر پسینہ ٹپکتا ہے ۔ برف پینے ، سنترہ ککڑی اور کھیرا کھانے کو جی چاہتا ہے ۔ امی کے ہاتھ سے پنکھا ایک منٹ کیلئے بھی جدا نہیں ہوتا ۔ دھوپ میں نکلا نہیں جاتا ۔ گھاس پھوس اور پودے مرجھاجاتے ہیں ۔ تالاب کنڈ ، ندی ، نالے سب سوکھ جاتے ہیں ۔ ہوا میں آگ کی سی لپٹ ہوتی ہے ۔ دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہونے لگتی ہیں ۔ رات میں نیند پوری نہیں ہوتی ۔
دن میں پسینے اور گرمی سے نیند نہیں آتی ۔ انسان جانور ، پنچھی ، پکھیر و سب پریشان ہوجاتے ہیں ۔ دھوپ سے بچنے اور سایہ کی تلاش میں پھرتے ہیں۔سب کی پریشانیاں دکھ کر اللہ میاں کو رحم آتا ہے ۔ تیز ہوائیں چلنے لگتی ہیں ۔ کالے کالے بادل اٹھتے اور رم جھم رم جھم پانی برسنے لگتا ہے ۔ ندی نالے کنڈ تالاب سب بھرجاتے ہیں ۔ تمام زمین ہری ہوجاتی ہے ۔ گھاس پھوس کی سوکھی جڑوں میں پانی پہنچتا ہے ۔ سب میں پھر سے جان آجاتی ہے ۔ کسان ہل بیل لے کر کھیت پہنچ جاتے ہیں ۔ دھان ، جوار ، مکئی وغیرہ بوتے ہیں ۔ آسمان پر اکثر بادل چھایا رہتا ہے ۔ کئی کئی دن تک برابر بارش ہوتی رہتی ہے ۔ مینڈک ٹراتے اور جھینگر سیٹی بجاتے ہیں ۔ گرمی میں دھوپ دیکھتے سوکھ جاتے تھے مگر اب بھیگ جائیں تو مشکل ہوجائے ۔ پسینہ بھی جلد نہیں سوکھتا ۔ بہت برا لگتا ہے ۔ ایندھن گیلا ہوجاتا ہے ۔ رفتہ رفتہ بارش کے دن ختم ہوجاتے ہیں ۔ اب سردی شروع ہوتی ہے ۔ سردی میں دن چھوٹے اور راتیں بڑی ہوتی ہیں ۔ سوتے سوتے جی اکتا جاتا ہے ۔ سردی کی وجہ سے ٹھٹھرے ہوئے لحافوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ باہر نکلیں تو کڑ کڑ دانت بجتے ہیں ۔ سوٹر اور گرم کوٹ پہنیں تب کہیں سردی دور ہوتی ہے ۔ آگ اور دھوپ جو گرمی کے دنوں میں بری معلوم ہوتی تھیں ۔ اب اچھی لگتی ہیں ۔ دھوپ میں لیٹنے بیٹھنے کو جی چاہتا ہے ۔ ہاتھ پیر پھٹنے لگے ہیں ۔ وائسلین نہ لگائیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ گھی ، ناریل کا تیل وغیرہ جم جاتے ہیں ۔ گنے ، نئے گڑ ، اور مٹر کی پھلیوں کی بہار ہوتی ہے ۔ جاڑا ختم ہوکر پھر گرمی شروع ہوتی ہے ۔ یہ ہیں سال کے تین موسم ، گرمی ، برسات ، جاڑا ، یہ تینوں اسی ترتیب سے سال بھر آتے رہتے ہیں ۔ سدا ایک ہی موسم رہتا تو طبیعت اکتا جاتی ۔اللہ میاں کی مہربانی ہے جو اس طرح موسم بدلتے رہتے ہیں اور ہم روز نئی نئی بہاریں دیکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭