واشنگٹن ۔ 26 جون (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کی قومی انٹیلیجنس کے سربراہ نے کہا ہے کہ لاکھوں سابق اور موجودہ وفاقی ملازمین کی معلومات کی سائبر سرقہ کے معاملے میں چین ہی ’سب سے اہم مشتبہ‘ ہے۔اس سائبر حملے کے بعد سے اب تک جیمز کلیپر سب سے اعلیٰ امریکی عہدیدار ہیں جنھوں نے چین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ جاریہ ماہ کے آغاز میں ہی چین پر اس سائبر حملے میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے جس میں امریکہ کے 40 لاکھ سابق اور موجودہ وفاقی ملازمین کی معلومات کا سرقہ کرلیا گیا تھا۔چین نے ہمیشہ سے ان الزامات کو مسترد کیا ہے امریکہ پر ہونے والے ہیکرز کے حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا۔جیمز کلیپر کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ نے تین روزہ مذاکرات میں چین پر واضح کیا ہے اسے چینی سائبر سرگرمیوں پر تحفظات ہیں۔
ان مذاکرات میں دونوں ممالک نے سائبر دنیا کا ضابطہ اخلاق وضع کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ جیمز کلیپر کے دفتر کے مطابق انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’چین بدستور مرکزی مشتبہ ہے اور امریکی حکومت کی تحقیقات جاری ہیں۔‘امریکی صدر براک اوباما نے بھی مذاکرات کے موقع پر چین کو اس کی سائبر سرگرمیوں پر امریکی تحفظات سے آگاہ کیا تھا اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔مذاکرات کے اختتام پر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا تھا کہ امریکہ نے چین پر قطعی طور پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسے حملے برداشت نہیں کرے گا اور یہ امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں کس طرح اس معاملے کو حل کرتے ہیں۔اس پر مذاکرات میں شریک چینی سٹیٹ قونصلر یانگ جائچی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ’حقائق کا احترام کرنا چاہیے۔‘انھوں نے یہ بھی کہا چین ہیکرز کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور سائبر سکیورٹی کے معاملے پر امریکہ سے تعاون کے لیے تیار ہے۔