زہریلے دُھو ؤں،صنعتی فضلوںاورفضائی آلودگی سے پیداہونے والے مسائل میں کمی کیوں نہیں ہوتی؟

’’عالمی یوم صحت ‘‘ ہم ہرسال مناتے ہیں مگر….
زہریلے دُھو ؤں،صنعتی فضلوںاورفضائی آلودگی سے پیداہونے والے مسائل میں کمی کیوں نہیں ہوتی؟
چارمینار ، لکڑی کا پل ،پنجہ گٹہ ،دلسکھ نگر میں SPM، 3تا4 سو کیوبک میٹر ، انسداد آلودگی کیلئے اسلامی تعلیمات پرعمل آوری کی شدید ضرورت
محمد جسیم الدین نظامی
حیدرآباد 7اپریل ۔ صاف ستھرا ماحول اورایک صحت مندمعاشرہ آلودگی سے پاک فضا اور ماحول سے ہی تشکیل پاتاہے اس لئے اپنے اردگرد کے ما حو ل کو صا ف ستھرا رکھنا ہم سب کا دینی ،اخلاقی اور معا شر تی فریضہ ہے۔ دراصل ، ماحول کی آلودگی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، جبکہ غذا ، پانی اور ہوا کی آلودگی ہزاروں بیماریوں اور سینکڑوں مسائل کی وجہہ بنی ہوئی ہے ۔گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور کارخانوں سے خارج ہونے والی مضر صحت گیسیں ہوا میں شامل ہو کر اسے آلودہ کررہی ہیں، جس سے انسانوں میں کئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ صنعتی علاقوں میں کام کرنے والے ان زہریلی گیسوں سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ تقریباً 80لاکھ سے زائد آبادی والے شہر حیدرآباد و سکندرآباد کی سڑکوں پر اِس وقت 27لاکھ سے زائد گاڑیاں دوڑتی نظر آرہی ہیں،جسمیں اوسطاً 600 نئے گاڑیوں کا یومیہ اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ اگرچہ اس رجحان سے شہریوں کے معاشی استحکام کا پتہ چلتاہے،تاہم اس معاملے کا سب سے منفی پہلویہ ہے کہ ان گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر اور،مہلک بیماریاں پھیلانے کا سبب بن رہاہے۔ذرائع کے مطابق ،علاقہ چار مینار ، کوٹھی، لکڑی کاپل، پنجہ گٹہ اور دلسکھ نگرجیسے علاقوں میں ٹریفک اژدہام سے نہ صرف ٹریفک مسائل پیدا ہورہے ہیں بلکہ ان گاڑیوں سے خارج ہونے والادھواں لوگوں کو (Respiratory diseases) سانس کی مختلف بیماریوںمیں مبتلا کرنے کا سبب بن رہاہے۔آندھراپردیش پولیوشن کنٹرول بورڈ سے وابستہ سوشل سائنٹسٹوںکے مطابق ، ٹوٹل سسپنڈیڈ پارٹی کولیٹ میٹر(TSPM ) فی کیوبک میٹر 200ملی گرام سے زائد نہیں ہونی چاہئے مگر حیدرآباد وسکندرآباد کے مختلف علاقوں میں TSPM ریٹ فی کیوبک 280تا 380 ملی گرام ریکارڈ کیا جارہاہے۔جبکہ چارمینار،عابڈس ، لکڑی کا پل ،پنجہ گٹہ ،دلسکھ نگر جیسے علاقے میں یہ شرح فی کیوبک 300تا364ملی گرام ریکارڈ کیا جارہاہے۔ چیسٹ ہاسپٹل کے Respiratory شعبے سے وابستہ ڈاکٹروں کے مطابق ،شہریان حیدرآباد سڑکوں پر سفرکر تے ہوئے سارا دن ان زہریلی گیسوں میں سانس لیتے ہیں جسکی وجہ سے پھیپھڑوں اور دل کے امراض میںمبتلاء ہورہے ہیں۔بقول انکے ناقص انجن سے خارج ہونے والی ہائیڈ رو کاربنس،سلفرڈائی آکسائڈس،کاربن مونو آکسائڈ اور دوسری گیسس ایک دوسر ے کے ساتھ مل کر انتہائی خطرناک ردعمل پیداکرنے کاسبب بنتی ہیں ۔دوسری طرف اسلامی دانشوروں کا ایقان ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے اگراسلامی تعلیمات پرعمل کیا جائے تو ہر طرح کی آلودگی سے نجات ممکن ہے۔یہ ایک حقیت ہے کہ سبز ہ کے تحفظ کا تصور سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے جیسا کہ ارشاد پاک ہے’’جو کسی بیری کے درخت کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ جہنم میں اس کے سر کو اوندھا کردے گا۔‘‘ (سنن ابی دائود، حدیث ) اسی طرح شجرکاری کی طرف توجہہ دلاتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشادفرمایا’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھرہم نے اس سے ہرچیز کے انکھوے نکالے، پھرہم نے اس سے سرسبزشاخیں ابھا ر یں ‘‘ (الانعام: ۹۹) اس آیت میں سبزہ کے اسباب پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ دوسری طرف حدیث پاک میں حضرت جابرؓ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا’جومسلمان بھی پودا لگائے گا، اور اس سے کچھ کھالیاجائے گا، وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا اور جو چوری کرلیاجائے، وہ قیامت تک کے لئے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث )اور حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جو مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی کرے گا اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھالے گا، وہ اس کے لئے صدقہ بن جائے گا ۔‘ ‘ (بخاری شریف حدیث )۔اسی طرح آ پﷺ نے شجرکاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:’’جو شخص پودا لگائے گا، اس کے لئے اس پودے سے نکلنے والے پھل کے بقدر ثواب لکھاجائے گا۔‘‘(مسند احمد، حدیث )….بہرحال اسلام جو کہ دین فطرت ہے، اس نے ماحولیات اور قدرتی وسائل جیسے جنگلاتی وسائل آبی وسائل اور زمینی وسائل کی بقا اور تحفظ کی خاطر مختلف جگہوںپرمختلف طریقوں سے توجہ دلائی ہے جس پرعمل کرنے سے یقینی طورپراس کائنات ارضی کوکسی بھی قسم کی آلود گی سے پاک بنایا جاسکتاہے۔