وزیر احمد خان، ایڈوکیٹ
مسلمانوں کو زکوۃ خیرات اور صدقہ دینے کے احکام ہیں ان تمام کو جو غریب اور ضرورتمندوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے اللہ تعالی نے کئی مقامات پر حکم دیا ہے کہ خیرات اس کے ’’ بنک کھاتے ‘‘ میں ڈال دیں جوکہ غریبوں کا جیب ہوتا ہے اور غریب اس لحاظ سے اللہ کی محبوب مخلوق ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کسی غریب یا فقیر کو بھوکا نہیں دیکھنا چاہتا ہے ورنہ یہ چوری ، لوٹ مار اور زنا جیسی برائیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں اس لئے ہر مسلمان پر اللہ کی مخلوق کے خیال رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔
اس لحاظ سے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ زکوۃ اور خیرات جوکہ دی جاتی ہے اس پر غریبوں کا حق ہوتا ہے ۔ ایک مودبانہ گذارش یہ ہے کہ ۱۴۰۰ سال کے عرصہ سے زکوۃ اور خیرات دی جارہی ہے اور کئی اسلامی سلطنتیں اور حکران گذرے ہیں بشمول چار خلفاء راشدین کے جس کو اسلام کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے ۔ حضرت عمرؓ موجودہ دنیا کے ایک وسیع علاقے کے حکمران تھے جنہیں وقتی سلطان کہو یا بادشاہ پھر بنوامیہ ، عباسیوں اور ترکیوں کا دورہ کیا کسی کے سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ فقیروں اور غریبوں کا بہتر حال بنانے کیلئے کوئی ایسے ٹھوس اقدام اٹھائے گئے جن کی رو سے ان کو سوشیل ، معاشی اور تعلیمی ترقی ہوسکے اور ان کی ٹریننگ کے ادارے بنائے گئے جن میں وہ اپنے حالات کو خود اچھا کرے ، لاچار ، مریض اور ضعیفوں کیلئے ٹھیرنے اور کھانے پینے کا انتظام ہو اور جو لوگوں میں محنت اور کام کرنے کی صلاحیت ہو ان کی قابلیت کے لحاظ سے کام پر لگادیا جائے ۔ ایسا کرنے میں صنعت و حرفت اور کارخانوں کے قیام کی ضرورت تھی ۔ ایسا کیوں نہیں ہوا ۔ یہ رہی مسلمانوں کی کمزوری ، صرف نیکیوں کی خاطر ہم خیرات دیتے رہے اور وہ ’’اللہ کے بینک ‘‘ میں جمع ہوتی گئی اور فقیری میں اضافہ ہوتا گیا ۔
ہمارے پیغمبرﷺ جب بھی خیرات دیتے تھے انہوں نے جو غیر مستحق فقراء ہیں ان کو خیرات دیتے ہوئے کہتے تھے کہ ایسے لوگوں کو خیرات لینا مناسب نہیں ہے ۔ ذیل کے چند واقعات ہیں جو قابل غور ہیں ۔
حضورﷺ خیرات دل کھول کر دیتے تھے ۔ ایک دفعہ جب آپﷺ گھر لوٹے آپ ﷺ نے کچھ دینار گھر میں دیکھا آپﷺ نے حضرت ہریرہؓ سے پوچھا یہ رقم کیوں ہے۔ حضرت ہریرہؓ نے کہا کہ کوئی سائل نہیں آیا ۔ اس پر حضورﷺ بے چین رہے جب تک کہ وہ رقم خیرات میں نہیں دی گئی ۔
پھر بھی آپ ﷺ نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے تھے جب کوئی بعیر ضرورت کے مانگنے کیلئے آتا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی ایک گٹھا لکڑیوں کا اٹھاکر جنگل سے لاکر بیچتا ہے تو اس کی کمائی عزت کی ہوتی ہے اور وہ بھیک مانگنے والے سے لاکھ درجے بہتر ہے ( ابوداؤد )
ایک دفعہ ایک انصاری نے حضورﷺ سے کچھ مانگا اس پر حضورﷺ نے اس سے پوچھا تیرے پاس کیا ہے ۔ اس نے جواب دیا اس کے پاس ایک چادر ہے جسے وہ بچھاکر سوجاتا ہے اور ایک پیالہ ۔ آپ ﷺ نے یہ دو چیزیں منگواکر بکوادیا ۔ اس کی قیمت دو درہم آئی ۔ آپ ﷺ نے ایک درہم اس کو کھانے کیلئے دیا اور دوسرے سے ایک رسی خرید کر لانے کیلئے دیا تاکہ وہ جنگل سے لکڑیاں لاکر بیچے ۔ پندرہ دن کے بعد وہ شحص آیا اور کہا کہ اس کے پاس ۱۵درہم بچے ہیں ۔ آپ ﷺ نے اس کو سامان ضروریات خریدنے کا مشورہ دیا( ابو داؤد )
ایک اور انصاری نے آکر حضور ﷺ نے مدد کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ نے کہا جو بھی میرے پاس ہے میں دینے کیلئے تیار ہوں لیکن اگر وہ اللہ سے فقیری کی لعنت سے بچنے کی مدد مانگتا ہے تو اللہ تعالی اس کی مدد ضرور کرتے ہیں اور جو دولت کی مانگ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی خواہش بھی پوری کرتے ہیں اور جو کوئی صبر کی دعاء کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو صبر اور رواداری کی خاصیت بھی دیتے ہیں لیکن صبر کی دعاء سے کوئی بہتر دعاء نہیں ہے ( صحیح بخاری )