زرعی قرض کی معافی مسئلہ پر کسانوں کی بے چینی دور کرنے کے اقدامات

چیف منسٹر کے سی آر کا جائزہ اجلاس، وزراء کو دورہ اضلاع کی ہدایت

حیدرآباد۔/6جون، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کی کے سی آر زیر قیادت حکومت کی جانب سے کسانوں کے قرضہ جات کی معافی کا مسئلہ حکومت کیلئے مسائل میں اضافہ کا سبب بن چکا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران چندرشیکھر راؤ نے کسانوں کے زرعی قرضہ جات کی معافی کا وعدہ کیا تھا اور ایک لاکھ روپئے تک کے قرضہ جات کی معافی کا تیقن دیا تھا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اسٹیٹ بینکرس کے ساتھ اجلاس میں کے سی آر نے اس مسئلہ کا جائزہ لیا اور اصولی طور پر فیصلہ کیا گیا کہ یکم جون 2013ء کے بعد حاصل کردہ زرعی قرض معاف کئے جائیں گے۔ حکومت کی اس شرط کے ساتھ ہی تلنگانہ کے اضلاع میں کسانوں نے احتجاج کا آغاز کردیا۔ کئی اضلاع میں حکومت کے خلاف مظاہرے کئے گئے، کسانوں کے اس احتجاج میں اپوزیشن جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔ تشکیل حکومت کے فوری بعد اس غیر متوقع عوامی ناراضگی سے ٹی آر ایس حکومت اُلجھن کا شکار ہوگئی۔ حکومت نے اگرچہ وضاحت کی کہ قرض کی معافی کے سلسلہ میں ابھی تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم کسانوں کے احتجاج اور اپوزیشن جماعتوں کے حملوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی ہدایت پر ریاستی وزراء کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر فینانس ای راجندر کے علاوہ وزراء کے ٹی راما راؤ، ہریش راؤ اور پوچارم سرینواس ریڈی نے شرکت کی۔ اجلاس میں کسانوں میں پھیلی بے چینی دور کرنے کیلئے حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا۔ اس سلسلہ میں تمام اضلاع کے پارٹی قائدین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کسانوں میں پھیلی بے چینی کو دور کرنے کیلئے متحرک ہوجائیں اور انہیں اس بات کا یقین دلائیں کہ حکومت قرض کی معافی کے وعدہ پر قائم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت قرض کی معافی کی شرط کے بارے میں کسی بھی وضاحت سے گریز کررہی ہے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں کے زیر التواء قرضہ جات کو بھی معاف کیا جائے۔ اس کے علاوہ زرعی قرض سے ہٹ کر گولڈ لون اور دیگر فینانسرس سے لئے گئے قرض بھی معاف کئے جائیں۔ حکومت نے بینکرس کو ہدایت دی کہ وہ گذشتہ ایک سال کے دوران بینکوں سے حاصل کئے گئے زرعی قرض کی تفصیلات اور مکمل رقم پر مبنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے۔ اسٹیٹ لیول بینکرس کمیٹی پیر کے دن حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کے بعد ہی ریاستی اسمبلی میں چیف منسٹر اس بارے میں حکومت کے موقف کا اعلان کریں گے۔اسی دوران وزیر فینانس ای راجندر نے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کے بہکاوے میں نہ آئیں کیونکہ حکومت نے ابھی تک قرض کی معافی کے سلسلہ میں کسی حد کا تعین نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکم جون 2013ء سے قرضوں کی معافی کے بارے میں جو اطلاعات عام کی گئیں اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ اس بارے میں قطعی فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے جو پیر کے دن بینکرس کمیٹی کی رپورٹ کے بعد کیا جائے گا۔ بینکرس کی جانب سے پیش کردہ ابتدائی رپورٹ میں پتہ چلا ہے کہ کسانوں نے مجموعی طور پر25ہزار کروڑ روپئے تک کے قرضہ جات کسانوں نے حاصل کئے ہیں جن میں 6ہزار کروڑ گولڈ لون اور 7کروڑ روپئے مختصر مدتی لون ہے۔ ٹی آر ایس نے زرعی قرض کی معافی کا وعدہ کیا تھا لہذا اب قرض کی معافی کی حد کا تعین اس کے لئے چیلنج سے کم نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ گولڈ لون کی معافی حکومت کیلئے ممکن نظر نہیں آتی۔