نہ تو راہرو کوئی راہ میں نہ تو منزلیں ہیں نگاہ میں
نہ تو راہ میں کوئی نقش پا مرے ساتھ چل مرے ساتھ چل
ریل بجٹ ‘ رفتار سے عاری
ریل بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا ۔ حکومت کے نقطہ نظر سے یہ بجٹ بہترین قرار دیا جا رہا ہے تو اپوزیشن جماعتوں نے اس بجٹ کو نئی بوتل میں پرانی شراب قرار دیا ہے اور کانگریس کا کہنا تھا کہ اس کے دور کی ہی اسکیمات کو نئے نام اور نئے انداز کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں کوئی بھی نہیں بات نہیں ہے ۔ بحیثیت مجموعی اپوزیشن نے اس بجٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور حکومت نے اس کی ستائش کی ہے ۔ وزیر ریلوے سریش پربھو نے جو ریل بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ رفتار سے عاری ہے ۔ ریل بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی حکومت پوری شدت کے ساتھ تشہیر کرتے ہوئے واہ واہی بٹور سکے جبکہ ایسا بھی کچھ نہیں کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع مل سکے ۔ یہ بین بین بجٹ کہا جاسکتا ہے جس نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو محدود مواقع فراہم کئے ہیں۔ اس میں نہ کوئی ایسا نیا پراجیکٹ پیش کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر عوام کو توقعات کے مطابق سہولتیں مل سکیں یا پھر ایسی کوئی اسکیم نہیں ہے جس کے تحت غریب اور مڈل کلاس مسافرین کو ریلوے سفر آرام دہ اور سہولت بخش محسوس ہوسکے ۔ حالانکہ وزیر ریلوے سریش پربھو نے مسافر کرایوں میں اور باربرداری کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے ‘ جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ‘ لیکن انہوں نے مسافرین کو کوئی بڑی سہولت فراہم کرنے سے بھی گریز کیا ہوا ہے ۔ یہ ایک کام چلاو انداز ہے ۔ فی الحال مسافرین جن کرایوں پر سفر کر رہے ہیں وہی برقرار رکھتے ہوئے انہیںخاموش ہی رکھا گیا ہے اور زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کرنے سے یا اس کیلئے رقمی فراہمی کو یقینی بنانے سے گریز کرتے ہوئے حکومت پر بھی کوئی بوجھ عائد نہیں کیا گیا ہے ۔ حکومت نے حالانکہ کچھ اسکیمات اور پراجیکٹس کا اعلان کیا ہے اور ان کیلئے رقم کی فراہمی کے بھی نشانے مقرر کئے ہیں لیکن یہ قطعیت سے اور یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کس پراجیکٹس کس حد تک قابل عمل ہوسکتے ہیںیا انہیں مقررہ نشانوں میں کس حد تک پورا کیا جاسکتا ہے ۔ ریلوے کو جو حالیہ عرصہ میں خسارہ کا ادعا کیا جا رہا ہے اس کو دور کرنے کیلئے بھی بجٹ میں کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا گیا ہے ۔
ہندوستان میں روزآنہ کروڑہا افراد ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ درمیانی سے طویل فاصلہ تک سفر کرنے والے مسافرین کیلئے ہندوستان میں ٹرین خدمات ہی واحد ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ وہ سفر کے اخراجات پورے کرسکتے ہیں۔ ان کرایوں میں گذشتہ عرصہ میں مختلف طریقوں سے اضافہ کردیا گیا تھا ۔ اب ریل بجٹ میں ایسا کرنے سے گریز کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت مسافرین کی جیب پر زیادہ بوجھ عائد کرنا نہیں چاہتا ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مڈل کلاس اور غریب مسافرین کیلئے کوئی راحت بھی نہیں پہونچائی گئی ہے ۔ بغیر ریزرویشن کے جنرل کمپارٹمنٹ کا سفر کرنے والے مسافرین خاص طور پر مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کمپارٹمنٹس کی حالت کو بہتر بنانے اور یہاںزیادہ گنجائش فراہم کرنے کے اقدامات کا سریش پربھو نے اپنی بجٹ تقریر میں وعدہ کیا ہے لیکن یہ سفر ہندوستان کی ٹرینوں کا بد ترین سفر ہوتا ہے جس میں مسافرین بے ہنگم حالات میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ٹرینوں میں سکیوریٹی کو بہتر بنانے پر بھی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے ۔ سرسری اقدامات کا تذکرہ تو ضرور موجود ہے لیکن کوئی جامع اور مبسوط لائحہ عمل کو پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ مذہبی اہمیت رکھنے والے اسٹینشوںکو خوبصورت بنانے کے پراجیکٹس کا بھی حکومت نے اعلان کیا ہے اور اس میں مخصوص اسٹیشنوں کو شامل کیا جا رہا ہے لیکن بیشتر ریلوے اسٹیشنوں پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے اتنے کچھ اقدامات کا بجٹ میںتذکرہ نہیں ہے جتنی ضرورت تھی ۔
ملک میں 100 اسٹیشنوں پر ایک سال میں اور اس کے بعد کے سال میں 400 اسٹیشنوں پر وائی فائی سہولتیں فراہم کرنے کا بجٹ میں وعدہ کیا گیا ہے ۔ یہ بھی ایک اچھا عمل ہے لیکن ٹرین خدمات کی بہتر فراہمی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ملک کے تمام علاقوں سے انصاف نہیںہوا ہے ۔ جو علاقے اورخطے مسلسل عدم توجہ کا شکار رہے ہیں ان پر اب بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ صرف درکار انفرا اسٹرکچر کو استعمال کرتے ہوئے کچھ بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ بجٹ میں بعض پراجیکٹس کیلئے جو رقومات ایل آئی سی اور خانگی شعبہ سے حاصل کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس میں وزارت ریلوے کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اور کس حد تک اپنے مقررہ نشانوں کو پورا کرسکتی ہے ۔ یہ ایک درمیانی نوعیت کا بجٹ ہے اور ٹرین خدمات کے اعتبار سے اسے سست رفتار بجٹ ہی کہا جاسکتا ہے ۔