ریاست میں صدر راج کا امکان

حیدرآباد۔/19فبروری، ( سیاست نیوز) ریاست میں چیف منسٹر کے عہدہ سے مسٹر این کرن کمار ریڈی کی جانب سے استعفی دینے اورگورنر کی جانب سے مکتوب استعفی منظور کرلینے کے بعد آندھرا پردیش میں’’ صدر راج ‘‘ کے نفاذ کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ جبکہ کئی ایک سیاسی مبصرین کے مطابق بھی صدر راج کے نفاذ کی پیش قیاسی کی جارہی ہے کیونکہ کارگذار چیف منسٹر کی حیثیت سے برقرار رہنے کی خواہش پر مسٹر این کرن کمار ریڈی کے انکار کئے جانے کے بعد کسی نئے چیف منسٹر کا انتخاب کرنا یا صدر راج کا نفاذ از حد ضروری ہوجاتا ہے۔لیکن نئے چیف منسٹر کا انتخاب کرنا کانگریس مقننہ پارٹی کیلئے موجودہ حالات میں ہرگز ممکن نہیں ہے کیونکہ اتفاق رائے کا حصول بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ثابت ہوگا اور اگر کسی کو چیف منسٹر منتخب کیا جائے تو وہ آئندہ ایوان ( اسمبلی ) میں اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کرپائیں گے۔

کانگریس پارٹی ذرائع کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ علاقہ واری اساس پر ارکان اسمبلی منقسم ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے کسی کو قائد کانگریس مقننہ پارٹی ( چیف منسٹر عہدہ پر ) منتخب کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ لہذا اس صورتحال کے پیش نظر حکومت کی تشکیل یا صدر راج کا نفاذ عمل میں لانے کی سفارش کرنے کے مسئلہ پر کانگریس پارٹی اور مرکزی حکومت پریشان کن صورتحال سے دوچار دکھائی دے رہی ہے۔ بالخصوص چیف منسٹر کے ہمراہ بعض ریاستی وزراء ( سیما آندھرا ) ارکان اسمبلی کی پارٹی سے دوری اختیار کرنا یقینی ہے۔ ان حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کو ہی بہتر تصور کیا جارہا ہے اسی دوران بتایا جاتا ہے کہ صدر پردیش کانگریس کمیٹی مسٹر بی ستیہ نارائنا سے ( جو متحدہ آندھرا کے کٹر حامی ہیں ) کانگریس پارٹی ہائی کمان نے ربط پیدا کرتے ہوئے مسٹر کرن کمار ریڈی کی آئندہ حکمت عملی اور لائحہ عمل کے تعلق سے واقفیت حاصل کی

اور بتایا جاتا ہے کہ کانگریس ہائی کمان نے بھی سیاسی مصلحت کے ساتھ پہل کرنے کی صدر پردیش کانگریس کمیٹی سے خواہش کی ہے۔ اسی دوران ریاست میں صدر راج کی پیش قیاسیوں کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ ریاست آندھرا پردیش میں سابق عرصہ میں 11جنوری 1973ء تا 10ڈسمبر 1973ء تک صدر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا، اسوقت کے چیف منسٹر مسٹر پیو ی نرسمہا راؤ کی زیر قیادت ریاستی حکومت کو برطرف کرکے صدر راج نافذ کیا گیا تھا۔ جبکہ چیف منسٹر مسٹر این ٹی راما راؤ کو بھی سال 1985ء میں عہدہ سے زبردستی ہٹادیئے جانے کے موقع پر پیدا شدہ بحران سے بھی سیاسی نوعیت سے ہی یکسوئی کیلئے اقدامات کئے گئے تھے۔ لیکن آج مسٹر کرن کمار ریڈی چیف منسٹر عہدہ سے مستعفی ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ آئندہ دو تا تین ماہ میں ہی عام انتخابات ریاست میں منعقد ہونے والے ہیں۔

لہذا ان حالات میں کسی بھی علاقہ کے قائد کو چیف منسٹر بنایا جائے تو دوسرے علاقہ والے اس چیف منسٹر کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ سیاسی مبصرین کی رائے کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ انتخابات کا عمل ریاست میں ( تلنگانہ و سیما آندھرا میں ) مکمل ہونے تک صدر راج کا نفاذ برقرار رکھنا ہی بہتر اقدام ہوسکتا ہے۔ کیونکہ صدر راج میں ہی انتخابات کا پرامن انعقاد عمل میں لایا جاسکتا ہے اور انتخابات مکمل ہونے کے ساتھ ہی حکومت کی تشکیل اکثریت کی بنیاد پر دونوں ریاستوں یعنی تلنگانہ ریاست اور سیما آندھرا ریاست میں عمل میں لائی جاسکے۔ ان تمام حالات کی روشنی میں مرکزی حکومت اور کانگریس ہائی کمان صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کی اطلاعات پائی جاتی ہیں اور رات دیر گئے تک بھی اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ تاہم دہلی سے موصولہ اطلاعات کی روشنی میں 20فبروری کو صبح میں مرکزی کابینہ کا اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ مرکزی کابینہ کے اس اجلاس میں ریاست آندھرا پردیش میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے تعلق سے کوئی قطعی فیصلہ کیا جائے گا۔