دواخانہ عثمانیہ عمارت کے انہدام کا منصوبہ قابل مذمت ، جناب زاہد علی خان کا بیان
حیدرآباد 24 جولائی (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے لئے جدوجہد کا مقصد اس شہر کی تہذیب و تمدن کی حفاظت کے علاوہ حیدرآباد کے ثقافتی ورثہ و تاریخی عمارتوں کی عظمت رفتہ کی بحالی تھا لیکن حکومت کی جانب سے دواخانہ عثمانیہ کی عمارت کے انہدام کے منصوبہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس شہر کی تاریخ کو مٹانے کے درپے ہے۔ جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر روزنامہ سیاست نے دواخانہ عثمانیہ کی خوبصورت عمارت کے انہدام کی اطلاعات پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ حکومت پر اِس بات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہر میں موجود ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے ذریعہ شہر حیدرآباد کی تاریخی اہمیت کو عالمی سطح پر اُجاگر کرے لیکن حکومت کے منصوبہ سے ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکومت شہر حیدرآباد میں موجود تہذیبی و ثقافتی ورثہ کی تباہی کے بالکلیہ طور پر تیار ہوچکی ہے۔
جناب زاہد علی خاں نے حکومت کے منصوبہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حکومت اگر اپنے طور پر ہی فیصلے کرنے لگتی ہے تو ایسی صورت میں وہ جامعہ عثمانیہ، شفاء خانہ یونانی، تاریخی چارمینار، چار کمان، عثمان ساگر و حمایت ساگر، تارہ متی بارہ دری، قلعہ گولکنڈہ، دارالشفاء، فلک نما، چومحلہ، پرانی حویلی اور کنگ کوٹھی جیسی تاریخی عمارتوں کو بھی تہس نہس کرتے ہوئے شہر کی شناخت کو ختم کرسکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ تقسیم ریاست کا جھگڑا ہی تہذیبی و ثقافتی شناخت کی بقاء کا جھگڑا رہا اور آندھرائی حکمرانوں کے دور میں سلطنت آصفیہ و قطب شاہی کے دور کی یادگاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں کوتاہی برتی گئی جس کے نتیجہ میں آج شہر کی بیشتر عمارتیں بالخصوص کتب خانہ آصفیہ، دواخانہ عثمانیہ، دواخانہ کنگ کوٹھی، ای این ٹی ہاسپٹل کے علاوہ دیگر مقامات کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے اور نئی ریاست کی تشکیل کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ حکومت تلنگانہ قطب شاہی و آصف جاہی دور کے ثقافتی دور کے اثاثہ جات کے تحفظ کو یقینی بنائے گی لیکن توقعات کے برعکس حکومت تلنگانہ کی جانب سے نت نئے منصوبے منظر عام پر آرہے ہیں جوکہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس طرح کے حالات مضحکہ خیز بنتے جارہے ہیں کیونکہ چیف منسٹر ایک جانب پرانے شہر کو ترکی کے شہر استنبول کے طرز پر ترقی دینے کا اعلان کررہے ہیں اور دوسری جانب شہر کی تاریخی عمارتوں کو منہدم کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں جس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چیف منسٹر تاریخی عمارتوں کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اس طرح کے اعلانات کررہے ہیں۔