ریاستی اقلیتی کمیشن کا دفتر گذشتہ 5 دن سے پانی میں محصور

ڈرینج کا بدبو دار پانی کمیشن کے دفتر میں داخل ۔ دو دن سے کمیشن کا کام کاج بھی بند

حیدرآباد۔/26جولائی، ( سیاست نیوز) اقلیتوں کے ساتھ حکومت کا جس طرح سلوک ہے اسی طرح اقلیتی اداروں کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اقلیتوں کے مسائل پر حکومت کو سفارشات پیش کرنے کیلئے موجود دستوری ادارہ ان دنوں اپنی بے بسی کا اظہار کرنے پر مجبور ہوچکا ہے اور کوئی بھی محکمہ اس کی سماعت کیلئے تیار نہیں۔ گذشتہ پانچ دن سے ریاستی اقلیتی کمیشن کا دفتر پانی میں عملاً محصور ہوچکا ہے اور کمیشن نے گذشتہ دو دن سے اپنا کام کاج بند کردیا۔ اگر بارش کا پانی ہو تو پھر بھی قابل برداشت ہے لیکن ڈرینج کا گندہ اور بدبو دار پانی کمیشن کے دفتر میں داخل ہوچکا ہے اور وہاں ایک لمحہ بھی کوئی قیام نہیں کرسکتا۔ کمیشن کے باب الداخلہ پر یہی گندہ پانی تقریباً تین فیٹ تک جمع ہے اور کوئی گاڑی بھی کمیشن کے دفتر میں داخل نہیں ہوسکتی۔ ان حالات میں ضرورت مند پیدل کس طرح دفتر میں داخل ہوپائے گا۔ صدر نشین اقلیتی کمیشن عابد رسول خاں نے ریاستی وزراء اور متعلقہ محکمہ جات کے اعلیٰ عہدیداروں کو اس صورتحال کے بارے میں بارہا توجہ مبذول کرائی ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس کے نتیجہ میں صدرنشین کمیشن خود بھی دو دن سے اپنے دفتر جانے سے قاصر ہیں اور قیامگاہ سے ہی دفتر کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دفتر راج بھون اور چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو کے کیمپ آفس لیک ویو گیسٹ ہاوز کے درمیان ہے لیکن عہدیداروں کو پانی کی نکاسی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بارش کے ساتھ ہی اس علاقہ میں پانی جمع ہوجاتا ہے اور نکاسی کیلئے ہمیشہ دو تین گھنٹے ہوجاتے ہیں لیکن اس مرتبہ بتایا جاتا ہے کہ خیریت آباد سے گذرنے والا زیر زمین نالہ پھٹ چکا ہے اس نالہ میں پانی گذرنے کا راستہ بند ہوگیا جس سے نالہ پھٹ کر پانی اُبلنے لگا ہے اور یہ ریاستی اقلیتی کمیشن اور اطراف کے فلیٹس کیلئے وبال جان بن چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نصر اسکول میں بھی یہ  پانی داخل ہونے لگا ہے۔ یہ نالہ حسین ساگر میں ملتا ہے لیکن پانی کیلئے راستہ نہ ہونے کے سبب وہ پھٹ پڑا ۔ عابد رسول خاں نے شہر کے انچارج وزیر کے ٹی راما راؤ کے علاوہ بلدی نظم و نسق، آر اینڈ بی، گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن، حیدرآباد میٹرو واٹر ورکس اینڈسیوریج بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں سے بارہا نمائندگی کی لیکن انہیں اقلیتی ادارہ سے کوئی دلچسپی یا ہمدردی نہیں ہے۔ جس طرح اقلیتوں کا حال ہے اسی طرح اقلیتی ادارے بھی حکومت اور عہدیداروں کی عدم توجہی کا شکارہیں۔