٭ ناجائز قابضین موجودہ سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب
٭ حکومت کو 130 کروڑ روپیوں کے نقصان کا امکان٭ عوام میٹھے پانی کی جھیل سے محرومی پر پریشان
حیدرآباد ۔ 20 فبروری ۔ انسان کی بقاء کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان بہت ضروری ہیں لیکن ان کے ساتھ پانی کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان نہ ملنے کے باوجود انسان کچھ عرصہ تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بناء اس کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر اگر روٹی مل جائے لیکن پانی نہ ملے تو نوالہ حلق میں پھنسے کا پھنسا رہ جائے گا اور ایسا نوالہ پانی نہ ملنے کے باعث موت کا نوالہ بن جائے گا۔ پانی اور انسان کی بقاء کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دنیا کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی انسانوں نے ان مقامات کے قریب اپنی بستیاں بسائیں، جہاں پانی کے ذخیرہ بشمول تالاب، کنٹے وغیرہ موجود تھے۔ آبی ذخیروں کے ممالک میں شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد ہمیشہ سے خوش قسمت رہا۔ اس شہر پر اللہ رب العزت نے خاص رحم و کرم فرمایا، جس کے نتیجہ میں جتنے بھی حکمرانوں (صرف شاہی) نے جہاں حکمرانی کی انہوں نے شہریوں کو صاف ستھرا اور میٹھا پانی فراہم کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی، لیکن جمہوریت کا سورج طلوع ہوتے ہی شہر کے تالاب، کنٹے، جھیلیں، باؤلیاں اور کنویں سوکھنے لگے یعنی مفاد پرست عناصر نے ان آبی ذخائر کے پیٹ مٹی سے بھرنے شروع کردیئے اور پھر ان پر بستیاں بسا دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہریان حیدرآباد کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ قارئین۔ آپ نے بام رکن الدولہ (رکن الدولہ جھیل) نام ضرور سنا ہوگا۔ کسی زمانے میں 104 ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی اس جھیل کا نام و نشان تقریباً مٹ چکا ہے۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہیکہ 19 فبروری کو صرف 24 گھنٹوں میں اس جھیل کی 13 ایکڑ 17 گنٹے اراضی پر نہ صرف ناجائز قبضہ کرلیا گیا بلکہ اس کی حصاربندی بھی کردی گئی۔
شیورام پلی پولیس اکیڈیمی کے بالکل روبرو واقع اس جھیل کی اراضی پر ناجائز قبضہ کئے جانے پر عوام اور سماجی جہدکاروں بشمول آبی ذخائر کے تحفظ میں مصروف تنظیموں سے وابستہ افراد میں کافی برہمی پائی جارہی ہے۔ عام لوگوں کا کہنا ہیکہ ایک ایسے وقت جبکہ لوک سبھا میں علحدہ تلنگانہ بل منظور کرلیا گیا، جس کے تحت حیدرآباد کو 10 برسوں تک دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت بنایا جائے گا اور لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری گورنر کو تفویض کی جائے گی ایسے میں اچانک اراضی کی حصاربندی اعلیٰ عہدیداروں اور لینڈ گرابرس کے سازباز کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ مقامی عوام اور سماجی جہدکاروں نے بتایا کہ ان لوگوں نے اعلیٰ عہدیداروں بشمول راجندر نگر ایم آر او سے ربط پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان لوگوں نے اپنے فون بند کر رکھے تھے۔ ریئیل اسٹیٹ ماہرین اور مقامی عوام کا کہنا ہیکہ اس علاقہ میں فی ایکڑ اراضی 8 تا 10 کروڑ روپئے میں فروخت ہورہی ہے۔ اس طرح 13 ایکڑ 17 گنٹے اراضی پر قبضہ کا مطلب یہ ہوا کہ ناجائز قابضین نے زائد از 130 کروڑ روپئے مالیتی تالاب کی اراضی پر قبضہ کیا ہے۔ شہر اور مضافاتی علاقوں میں واقع جھیلوں کے تحفظ میں مصروف غیر سرکاری تنظیم SOUL، (Save Our Urban Lakes) اور مقامی عوام نے تالاب کی حدبندی کرنے کی پرزور مانگ کی ہے۔ سیول کی کنوینر لبنیٰ ثروت اور کوآرڈینیٹر ایس کیو مسعود کی توجہ دلانے پر انفورسمنٹ کے ڈی ایس پی مسٹر منموہن اور ایگزیکیٹیو انجینئر ایچ ایم ڈی اے مسٹر کرشنا راؤ نے دیگر عہدیداروں کے ساتھ معائنہ کیا۔ اس موقع پر سی پی آئی راجندر نگر گریٹر حیدرآباد کے کنوینر ای ایس این ریڈی نے بتایا کہ اس جھیل کے تحت 101 ایکڑ اراضی ہے اور ان کی پارٹی ہر حال میں اس کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سال 2008ء میں بھی چند مفادات حاصلہ نے اس ِجھیل پر قبضہ کی کوشش کی تھی، جس کے خلاف کمیونسٹ پارٹی نے وہاں 6 ماہ تک غریبوں کو بسادیاتھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر 24 گھنٹے میں اس وسیع و عریض جھیل کی اراضی پر قبضہ کرتے ہوئے اس کی حصاربندی کرنا کس کی کارستانی ہے؟۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 13 فبروری 2008ء کو سیاست نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھی اس کے بعد 21 اگسٹ 2013ء کو بھی سیاست نے اس جھیل پر قبضے کئے جانے کے منصوبوں کو بے نقاب کیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ 14 فبروری کو ریاستی چیف سکریٹری ڈاکٹر پی کے موہنتی نے میئر اور کمشنر بلدیہ کے ہمراہ میرعالم تالاب کا دورہ کیا
اور 50 کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا، لیکن افسوس کہ انہیں کچھ فاصلہ پر واقع رکن الدولہ جھیل جانے کی زحمت گوارا نہ ہوئی۔ واضح رہیکہ یہ تاریخی جھیل 1770 میں اس وقت کے وزیراعظم نواب رکن الدولہ نے تعمیر کروائی تھی اور اس کا صاف و شفاف پانی جہاں شاہی خاندان استعمال کرتا تھا، وہیں مقامی لوگ بھی اس سے بھرپور استفادہ کرتے رہے۔ تاریخی کتب میں بتایا گیا ہیکہ یہ جھیل 104 ایکڑ اراضی پر پھیلی ہے لیکن اب اس کا نام و نشان مٹانے کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں حالانکہ ٹوپو گرافک شیٹ میں جن حیدرآبادی تالابوں کے نقشے ہیں، ان میں رکن الدولہ جھیل کا نقشہ اور ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس شیٹ میں صرف ان تالابوں اور جھیلوں کے نقشے ہوتے ہیں جو 10 ایکڑ اراضی سے زائد رقبہ پر محیط ہوں۔ بہرحال اس تاریخی جھیل کو ناجائز قابضین کے قبضہ سے بچانا عوام اور عہدیداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے سب سے پہلے سرکاری محکمہ جات کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔