روس میں دھماکہ

کام آجائے گا ناکام تغافل اُن کا
غم کی دنیا کو جو میں اور بھی برباد کروں
روس میں دھماکہ
روس کو اپنے ماضی اور حال کی پالیسیوں کی وجہ سے حملوں اور دھماکوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو اس کے لئے سینٹ پیٹرس برگ میٹرو ریل دھماکہ سے سبق لینے کا موقع ہے۔ سینٹ پیٹرس برگ میں پیر کو ہونے والے دھماکے میں 11 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔ زیرزمین ٹرین اسٹیشن پر حملہ کرنے والے مشتبہ شخص کا پتہ چل جانے کے بعد حکومت ِ روس کو شام اور چیچنیا میں کی گئی مداخلت پر ہونے والے ردعمل کا اندازہ ہوتا ہے تو آنے والے دنوں میں روسی سرزمین کے لئے نئی پریشانیاں پیدا کرنے والی پالیسیوں سے گریز کرنے کا ایک مضبوط اشارہ سمجھا جانا چاہئے۔ سینٹ پیٹرس برگ زیرزمین ریلوے سسٹم پر ہلاکت خیز حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی روسی حکومت نے اندازہ کرلیا کہ اس طرح کے دھماکے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں۔ روس نے حالیہ برسوںمیں اپنے اطراف کئی دشمن پیدا کرلئے ہیں۔ روس کو اس طرح کے حملوں کا ماضی میں بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2010ء میں ماسکو میٹرو پر دوہرے خودکش بم دھماکہ میں 38 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کے سال میں ماسکو سے سینٹ پیٹرس برگ جانے والی ایکسپریس ٹرین پر حملہ میں 27 افراد ہلاک اور 130 زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری قفقاز کے مجاہدین نے قبول کی تھی جو کریملن سے باہم متصادم ہیں۔ قفقاز سے تعلق رکھنے والے اسلام پسندوں کی بڑی تعداد شام کی خون ریز خانہ جنگی میں شامل ہے۔ روس نے اسلام پسندوں کا صفایا کرنے کے لئے جس طرح کی خطرناک سازشوں کو بروئے کار لایا ہے، اس کے ردعمل میں اگر روس کے اندر دھماکے ہورہے ہیں تو یہ حکومت روس کو اپنی پالیسیوں اور زیادتیوں پر نظر ثانی کرنے کا ایک موقع سمجھنا چاہئے۔ شام کی سرحدوں پر روس کی جانب سے کی گئی بمباری میں سابق سوویت ، وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں مرنے والوں کا تعلق چیچنیا، ازبیک اور تاجکستان سے تھا۔ اسلام پسندوں نے اکثر اپنے مشن کو خون ریز بناکر خود اپنے لئے بھی مسائل کھڑے کئے ہیں۔ اس کے باوجود جب بڑی طاقتوں جیسے روس کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو پھر یہ اسلام پسند سَر پر کفن باندھ لیتے ہیں۔ شام میں سرگرم جنگجوؤں کو اکثر یہ اعلان کرتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ وہ بہت جلد روس کو سبق سکھائیں گے۔ ’’روس میں جہاد‘‘ شروع کرنے کا بھی اکثر اعلان کرتے ہیں مگر وہ اپنے مقاصد کو بروئے کار نہیں لاتے۔ صرف دھمکیوں سے کام لیتے ہیں۔ روس کو سابق میں دیگر ممالک کے سربراہوں سے بارہا انتباہ دیا ہے کہ وہ شام میں بشارالاسد حکومت کی سرپرستی کرنا بند کردے کیونکہ چیچنیا کے اسلام پسندوں نے روس میں حملوں کا عہد کیا ہے۔ اس طرح کی دی گئی پیشگی اطلاعات کو نظرانداز کرکے روس خاص کر صدر ولادیمیر پوٹن شام میں اپنی موافق بشارالاسد پالیسی کے ذریعہ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے آرہے ہیں۔ صدر روس کے سامنے دہشت گردی سمیت تمام وجوہات موجود ہیں۔ اسلام پسندوں اور شام میں انسانی حقوق کو کچل دینے کی کارروائیوں کو فوری ختم کردینے کی ضرورت ہے۔ صدر ولادیمیر پوٹن بظاہر روس کو ایک پرامن ملک بنانا چاہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ روس کسی کے ساتھ لڑائی نہیں کرنا چاہتا۔ ان کے کہنے اور کرنے میں فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔ شام میں روس کی موجودگی میں سب سے بڑا ثبوت ہے کہ صدر پوٹن دنیا کے اس اہم خطہ میں امن و سکون نہیں چاہتے۔ اپنے ہمسایہ ملک یوکرین کے تعلق سے بھی ان کی پالیسی سب پر عیاں ہے۔ اقوام متحدہ بھی روس کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتا۔ یوکرین میں روس نواز باغیوں کی سرپرستی کرنے سے جو خون ریزی ہورہی ہے، اس کے بھیانک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ شام میں بھی اس خطوط پر بشارالاسد حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو کچلنے کے لئے بمباری کی جارہی ہے۔ روس کو اپنی مخالف انسانیت پالیسیوں پر نظرثانی کرکے امن و دوستی کی راہ اختیار کرنی ہوگی۔ سابق سوویت یونین کی پالیسیوں سے بہت دُور نکل جانے کے نتائج آگے چل کر خود روسی عوام کے لئے سنگین مسائل پیدا کردیں گے۔ کسی بھی ملک میں فوجی کشیدگی کو ہوا دینے کی حرکتیں اور درون خانہ تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ آج روس اپنے اطراف دشمن پیدا کرنے کی رفتار کو تیز کرتا جارہا ہے تو آنے والے دِنوں میں وہ خود کو سنگین بحران سے دوچار پائے گا۔