روزہ کے مقاصد

روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں اور صوم کے معنی کسی چیز سے رکنا اور اسے چھوڑ دینا ہے (لسان العرب) اصطلاح شریعت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کا جو احکام شریعت کا مکلف ہو، صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ کی نیت اور اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے ارادتاً کھانے پینے اور جماع سے مجتنب رہنا ہے۔

روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ روزہ کے مقاصد میں یہ بھی ہے کہ انسان اپنے نفس پر حاکم ہوکر پاکیزگی کے اعلی مقام تک پہنچ جائے۔ روزے کی فرضیت کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ ارشاد الہی ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ اسی طرح فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم پرہیزگار و متقی بن جاؤ۔ وہ بھی گنتی کے چند روز ہیں، اس پر بھی جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی کو پوری کرے اور جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتے ان پر ایک روزہ کے بدلے ایک محتاج کو کھانا کھلادینا ہے۔ اس پر بھی جو شخص اپنی خوشی سے (روزہ رکھنا چاہے) رکھے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور سمجھو تو روزہ رکھنا (بہرحال) تمہارے حق میں بہتر ہے۔ رمضان کا مہینہ تو ایسا بابرکت ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا ہے، جو لوگوں کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور فرقان کے کھلے احکام موجود ہیں تو تم میں سے جو شخص اس ماہ کو پائے تو وہ ضرور اس مہینہ کے روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا اور چاہئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ نے جو تم کو راہ راست دکھائی ہے اس کے لئے اس کی بڑائی کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو‘‘۔ (سورۃ البقرہ)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ روزہ کے تین اہم مقاصد ہیں: (۱) تقویٰ (۲) خدا کی تکبیر و تعظیم کا جذبہ پیدا کرنا (۳) خدا کا شکر ادا کرنا۔ پس روزے کی ساری حکمتیں اور فضیلتیں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔
اس سلسلے میں احادیث شریفہ کے علاوہ فقہاء اور علمائے کبار نے روزہ کے اسرار پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ سابقہ امتوں پر بھی فرض تھا اور اس کی تائید تورات اور انجیل سے بھی ہوتی ہے۔ احادیث شریفہ میں روزے کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب رمضان شروع ہوتا ہے تو رحمت (بروایت دیگر جنت) کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جس شخص نے ایمان اور حصول ثواب کے لئے رمضان کے روزے رکھے، اس کے گزشتہ کے سارے گناہ معاف ہو گئے۔ انسان کی ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، مگر اللہ تعالی نے روزہ کو اہمیت دیتے ہوئے فرمایا ’’بندہ روزہ میرے لئے رہتا ہے اور اس کا اجر میں ہی عطا کروں گا‘‘۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کے آخری دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے لوگو! ایک عظمت والا اور برکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہے، اس مہینہ میں قیام اللیل نفل ہے، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمگساری کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں مؤمن کا رزق زیادہ ہو جاتا ہے۔ جس نے روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور اسے جہنم سے نجات ملتی ہے… اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا دوزخ سے نجات کا۔ جس نے اپنے خادم سے اس مہینہ میں کام کم لیا، اللہ اس کے گناہ معاف کردے گا اور اسے دوزخ سے بچالے گا‘‘۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے مشکوۃ المصابیح، کتاب الصوم)

غرض اس طرح کی بہت سی فضیلتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ روزہ کے ترک کرنے پر بہت وعیدیں آئی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص رمضان میں (بے عذر شرعی) ایک دن بھی روزہ نہ رکھا تو اس روزہ کے بدلے اگر تمام عمر روزہ رکھے تو کافی نہ ہوگا‘‘ (الترمذی) ایک حدیث میں فرمایا ’’جو شخص ماہ رمضان میں گناہوں کی معافی حاصل نہ کرسکے ، وہ اس کی رحمت سے محروم اور دور ہو گیا‘‘۔
قبولیت دعا کا بھی روزہ سے گہرا تعلق ہے، اس لئے قرآن میں رمضان کا ذکر کرتے ہوئے خاص طورپر قرب الہی اور دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے ’’جب میرے بندے تم سے میرے متعلق دریافت کریں تو انھیں بتادو کہ میں قریب ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا کو جب وہ مجھے پکارتا ہے قبول کرتا ہوں، پس لوگوں کو چاہئے کہ میری فرماں برداری کریں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ ہدایت پائیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۸۶)

شاہ ولی اللہ دہلوی نے صوم کی حقیقت پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے ’’چوں کہ شدید بہیمیت احکام پر عمل پیرا ہونے سے مانع ہے، اس کے مقہور اور مغلوب کرنے پر زیادہ سے زیادہ توجہ کرنا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ بہیمیت کو تقویت دینے اور اس کی ظلمت بڑھانے کے لئے خوش ترین اسباب کھانا پینا اور شہوت نفسانیہ میں منہمک ہونا ہے۔ بہیمیت کو مقہور و مغلوب کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسباب کی تقلیل میں آدمی کوشاں ہو، اس لئے وہ تمام خدا پرست جو اپنے نفس امارہ کی مغلوبیت اور آثار ملکیت کے ظہور کے خواہاں ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی ملک کے رہنے والے ہوں، ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی بہترین تدبیر انھیں کی تقلیل ہے، نیز اصل مقصود یہ ہے کہ آدمی کی بہیمیت اس کی مَلکیت کی تابع ہو جائے، تاکہ وہ اس میں اپنا تصرف کرسکے اور اول الذکر اس کے رنگ میں رنگ جائے‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ابواب الصوم)
اسلام میں روزے ماہ شعبان سنہ ۲ھ میں مدینہ منورہ میں فرض ہوئے اور ان کے لئے رمضان کا مہینہ مخصوص کیا گیا۔ اس سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طورپر مختلف دنوں میں نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ اس مہینہ کو اس خاص ریاضت کے لئے منتخب کیا گیا ہے کہ اس مہینہ میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا اور یہ رمضان ہی کا مہینہ ہے، جس میں انوار الہیہ کی پہلی تجلی (وحی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر جلوہ ریز ہوئی۔ اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے سرفراز فرمائے۔ (آمین)