رفیق زندگی کے ساتھ رفاقت کی نزاکت و اہمیت

(قسط دوم)
مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
اللہ سبحا نہ نے نسبی رشتوں کی طرح صہری یعنی سسرالی رشتوں کی اہمیت کو اجاگر فرمایا ہے ارشاد باری ہے ’’وہی تو ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا پھر اسے نسبی و سسرالی رشتوں والا بنا دیا یقیناآپ کا رب ہر چیز پر قادر ہے ‘۲۵؍۵۴ ۔

جس طرح نسب کی وجہ سے رشتوں میں حرمت آ تی ہے اسی طرح سسرالی رشتوں کی وجہ بھی حرمت قائم ہو تی ہیں ،نکاح ایسا مقدس رشتہ ہے کہ جس کی وجہ بیوی کی ماں شوہر پر اپنی حقیقی ماں کی طرح ابدی طور پر حرام ہوجاتی ہے، بیوی نکاح میں رہے یا نہ رہے ہر صورت میں یہ حرمت قائم رہتی ہے ،نکاح کے بعد شوہر کے گھر میں بیوی کے بھائیوں کی آمد و رفت اور وہاں ان کے قیام پر شریعت نے کو ئی روک نہیں لگائی ، اگر وہ چاہیں تو ایک مشترکہ مکان میں ان کی معاشرت ہو سکتی ہیں، لیکن شوہر کے بھائیوں کے لئے ’’الحمو الموت ‘‘فرماکر انکی آمد و رفت، انکے قیام ان کے ساتھ ایک مکان میں اجتماعی معاشرت پر نا پسندیدگی کی مہر لگا دی ہے ۔

معاشی تنگی ،غربت و تنگدستی کی وجہ پیدا ہو نے والے مسائل قابل بر داشت ہو سکتے ہیں ،اور کسی طرح کے مصائب ومشکلات کو سہار لیا جا سکتا ہے ،بشرطیکہ ازدواجی زندگی میں پیا ر و محبت کا برتاو ملے ،اچھا برتاو نہ ملے تو کم از کم برا اور غیر اخلاقی بر تاو تو نہیں ملنا چاہیئے راحت نہ پہنچائی جاسکے تو کم از کم تکلیف تو نہیں پہنچانی چاہیئے خاص طور پر ذہنی اذیت پہنچانے سے تو بڑی سخت احتیاط برتنی چاہیئے ،کیو نکہ ذہنی اذیت و کرب ایسا سمِ قاتل ہے کہ اس کی وجہ زندگی کی خوشگواری ختم ہو جاتی ہے ،

عیش و راحت کے سارے ساز و سامان کاٹ کھانے کو آتے ہیں ،ذہنی کرب سے گزارنے والے کچھ شوہر بڑی خوش فہمی میں رہتے ہیں ، مادی وسائل فراہم کر دینے کو کافی سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسباب کی دنیا میں آخر کیا کمی رہ گئی ہے ، پھر کس بات کا رنج ہے ، اور پریشانی و الجھن کس بات کی ہے ،ظاہر ہے ذہنی اذیت پہنچانے والے کو اس بات کا احساس نہیں رہتا کہ وہ تکلیف دے رہا ہے ،شوہر خوش اخلاق ہو حقیقی معنی میں انسان ہو اور انسانی اقدار کو اپنی زندگی میں برتتا ہو ،تو پھر وہ غریب ہی کیو ںنہ ہو بیوی اس کے ساتھ خو شی خوشی زندگی بسرکر سکتی ہے اس کے برعکس شوہر کی بد خلقی زندگی گزارنے کے سارے مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود بیوی کو خوشی نہیں دے سکتی ، عورت بد خلق ہو تب بھی یہی صورت حال رہتی ہے ، کچھ عورتیں بھی ایسی ہو تی ہیں جو ازدواجی زندگی میں اپنی نا دانیوں سے زہر گھولتی ہیں ، خوش حال زندگی کیلئے مرد کی طرح عورت کا بھی نیک نفس و دین دار ہو نا ضروری ہے ،بسا اوقات عورت نیک نہ ہو تو مرد کو صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ، اسی طرح شوہر اگر دین دارانہ مزاج کا حامل نہ ہو تو بیوی کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے،

لیکن مردوں سے زیادہ عورتوں کو سخت حالات سے دو چار ہو نا پڑتا ہے ،سماج نے عورت کو اکثر حالات میں ظلم کی چکی میں پیسا ہے ، ایسے کئی ازدواجی زندگی کے مسائل حل کیلئے سامنے آئے ہیں، جو بیویوں پر حد درجہ ظلم و زیادتی کی ایک غمناک داستان ہیں ، جس میں اکثر مرد حضرات جن کا ظاہرہ تو بڑا دین دارانہ ہو تا ہے جب کہ ظاہری احوال کی خوبی باطنی احوال کی خو بی کے بغیر اللہ کے ہاں قابل قبول ہی نہیں، ہاں جس ظاہر کی باطن بھی تصدیق کرے وہ اللہ کے پاس معتبر ہے ،اور بندوں کے ہاں بھی اس کی قدر ہے،حدیث پاک میں وارد ہے’’ بیشک اللہ شانہ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتے یعنی ظاہر پر نظر نہیں فرماتے بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور نیتوں کو دیکھتے ہیں ،یعنی باطن پر نظر ہو تی ہے ‘‘اللہ کے نبی ﷺ نے دعا سکھا ئی ہے اور وہ دعا یہ ہے اللھم اجعل سریرتی خیرا من علانیتی واجعل علانیتی صا لحۃ ۔اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاہر سے اچھا بنا دے اور میرے ظاہر کو بھی اچھا کر دے اور نیک بنادے ۔اس دعا کی رو ح یہی ہے کہ ظاہر پر ضرور توجہ دی جائے لیکن باطن درست نہ ہو تو ظاہر کی بہتری کا کوئی اعتبار نہیں ، اسی لئے باطن کو سنوار نے کی زیادہ فکر ہو نی چاہیئے باطن کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ ظاہر کی درستگی کی طرف بھی ضرور توجہ ہو نی چاہیئے ،چشتیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ تصوف کی دنیا کی نامور ہستی۔
حضرت محبوب الٰہی رحمہ اللہ کے چہیتے اور خاص مرید و جانشین حضرت امیر خسرو رحمہ اللہ نے اس کی تر جمانی فر مائی ہے ۔

مراد اہل طریقت لباس ظاہر نیست
کمر بخدمت سلطاں ببند و صوفی باش
ازدواجی زندگی کی کامیا بی کیلئے بھی ظاہر سے زیادہ باطن کی نیکی و پاکیزہ نفسی شرط ہے ،نیک نفسی محبوب شئی ہے انسان جتنا زیادہ نیک نفس ہو گا اتنا زیادہ وہ بارگاہ الہی میں مقرب ہو گا ، باطن کی خرابی ہی دراصل فساد کی جڑ ہے ،اس لئے جن کی ازدواجی زندگی میں ان کی افتاد طبع کی وجہ تلخیاں پیدا ہو تی ہیں، ان کو بیوی کی کوئی خو بی ایک آنکھ نہیں بھاتی،ہمیشہ غیر ضروری شکوہ و شکایات اور مفروضہ کو تاہیوں اور قصوروں کی گر دان جاری رہتی ہیں،اس طرح بیوی کو اور بیوی کے والدین و افراد خاندان کو مطعون کر کے بیوی کو روحانی کرب و اذیت سے گزارا جا تا ہے ،ذہنی اذیت ایسی مصیبت ہے جس کا کوئی مداوا نہیں، ذہنی کرب و اضطراب کی وجہ اکثر جسمانی اور نفسیاتی امراض دامن تھام لیتے ہیں ، بسا اوقات زندگی بھر کے وہ مہمان بن جاتے ہیں ، سکون و راحت وہ نعمت ہے جو غربت کے ساتھ رہ سکتی ہے ، سکون و راحت کی وجہ غربت کے باوجودگزارہ کر لیا جا سکتا ہے ، لیکن امارت ومادی سہولتوں کے ساتھ ذہنی کرب و اضطراب ہو تو وہاںسے سکون و راحت رخصت ہو جاتا ہے ، تکلیف پہنچانے والے اذیت پہنچانے کیلئے زبان ہی پراکتفا نہیںکرتے ، بلکہ رویہ او ر بر تاو سے بھی تکلیف دیتے ہیں ، زبان سے جو کچھ نا روا الفاظ استعمال ہو تے ہیں۔

وہ بھی دلوں کو زخم پہنچاتے ہیں، زبان قال کے علاوہ کبھی رویہ اور بر تاو سے تکلیف دی جاتی ہے ، ایسے تکلیف دہ رویہ اور برتاو زبان حال کہلا تے ہیں، زبان حال سے پہنچائی جا نے والی اذیت بھی دلوں کو چھلنی کر تی ہے ، احساس و ادراک کی نعمت جن کو زیادہ ملتی ہے اتنی ہی اس سے انکو اذیت زیادہ ہو تی ہے ، عام حا لات میں بیوی کو ذہنی اذیت سے دو چار کرنا بھی بڑا گناہ ہے، اس سے اللہ کی رحمت دور ہو جاتی ہے ، اب اس کا کیا نقصان دنیا میں ہو سکتا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا،

اس گناہ کے برے اثرات زندگی میں اکثر ظاہر ہو تے ہے لیکن انسا ن اس کو محسوس نہیں کر تے اور اس سے متنبہ ہو کر اپنی اصلاح نہیں کر لیتے اورآخرت میں تواس کے نقصان کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ دل دکھانا خواہ وہ کسی کا ہو جب گناہ ہے تو اپنی رفیق زندگی کے ساتھ دل آزارانہ سلوک گناہ کی شدت کو اوربڑھا دیتا ہے ، اکثر حالات میں بزمانہ حمل بھی ظلم و زیادتی کے واقعات روا رکھے جاتے ہیں ،دوران حمل ہو نے والی زیادتیاں حمل اور حاملہ دونوں کیلئے نقصان رساں ثابت ہو سکتی ہیں اس لئے بیوی اگر حمل کے زمانے میں ہو تو اس کو جس قدر خوش رکھا جا سکتا ہو خوش رکھا جائے ، اس کے خوش گوار اثرات حمل پر مرتب ہو تے ہے،اور آئندہ اس کے اچھے امکا نات کا تصور کیا جا سکتا ہے ،حا لت حمل میں بیوی کو ذہنی اذیت پہنچانا اور دل آزار رویہ اختیا کرنا حمل کو شدید ضرر پہنچا سکتا ہے ایسی حالت میںہونے والے امکانی نقصانات کا خمیازہ اذیت پہنچانے والے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے ، بیوی چونکہ زندگی کی ساتھی ہے اور ازدواجی زندگی میں اس کا بڑا رول ہے، اس حقیقت کو سمجھنے والے شیر و شکر بن کر زندگی گزارتے ہیں ،اور بیوی کی ناز بر داری کر نے کو قرب الہی کا زریعہ جانتے ہیں ، نکاح کا مقصد ہی نسل کو آگے بڑھا نا ہے، اس میں مرد سے زیادہ عورت کا اہم رول ہے ، بیوی حمل و رضاعت وغیرہ جیسی گرانبار ذمہ داری کو اٹھا تی ہے

، اس لئے اسلام نے اس کی خاص رعایت رکھنے کی تاکید کی ہے ، اذیت پہنچانے والے کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ اس سے جہا ںرفیق زندگی کو صدمہ پہنچ سکتا ہے ،روحانی کرب کے ساتھ اسکی جسمانی صحت برباد ہو سکتی ہے وہیں اس کی کوکھ میں پلنے والی نھنی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ،حمل کے دوران حمل کا ماں سے جسمانی و روحانی اتنا گہرا ربط ہو تا ہے کہ ماں پر طاری ہو نے والے مسرت و خوشی کے احوال کا اور رنج و غم و ذہنی کرب و اضطراب کے مضرات و نقصانات کا اس پر براہ راست اثر مرتب ہو تا ہے،انسان جب کسی سے بلا وجہ ناراض رہتاہے اور خود ساختہ و مفروضہ خیالات کی رو میں بہ جاتا ہے تو پھر وہ کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا عداوت و دشمنی کا ،نفرت و حقارت کا ایسا پردہ اس کی آنکھوں کے سامنے پڑجاتا ہے کہ اسکو اس کے نتائج بد کی پرواہ نہیں ہو تی وقتی طورپر اس کو کچھ دیر کیلئے تسکین ہو جاتی ہے ،لیکن ضمیر زندہ ہو تو وہ بھی خوش نہیں رہ سکتا ،ماہرین نفسیات نے ایک اصول دیا ہے ’’خوش رہو اور خوش رکھو‘‘اس اصول پر عمل کر نے والے ہمیشہ خوش رہتے ہیں، اور اپنے حال و ماحول کو خوش رکھتے ہیں، اسلامی اصول و ضوابط اور اسلامی اخلاق و آداب کی رعایت جن کی عادت ثانیہ بن جائے وہ یقینا اس کی عملی مثال ہو تے ہیں۔

اللہ سبحانہ نے عورتوں کے ساتھ بہتر معاشرت اختیا ر کر نے کی خصوصی تاکید کی ہے، ۴؍۱۹۔ اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو نازک آبگینوں سے تعبیر فر ما کر ان کے ساتھ خصوصی رعایت رکھنے اور عمدہ سلوک کی ہدایت دی ہے ، اور آپ ﷺ نے صرف امت کو اس کی ہدایت ہی نہیں دی بلکہ اپنی مبارک و پاکیزہ ازدواجی زندگی کے ایسے عملی نقوش چھو ڑے ہیں جو ساری انسانیت کیلئے نمونہ ہیں۔