خواہشوں کے اس گھنے جنگل میں اب
اک نہ اک تو پھول کھلنا چاہئے
راہول گاندھی کے مخالفین
سیاسی طاقت میں اپنی اوقات کو بھولنے والے ریاستی قائدین ان دنوں قومی قائدین پر فقرے کسنے کا عمل تیز کررہے ہیں۔ تلنگانہ اسمبلی انتخابات سے قبل ریاست کا منظر کچھ تھا اب انتخابی نتائج کے بعد کا منظر بتا رہا ہیکہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے قائدین کی زبان پہلے سے زیادہ تیز اور چرب ہوگئی ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی کے تعلق سے قومی سطح پر کئے جانے والے تبصرے اور ان تبصروں کے بانی کو کانگریس نے 3 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اپنی کامیابی درج کرواکر چپ کروایا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے لئے راہول گاندھی کل تک ایک ’’پپو‘‘ تھے اب انہیں ’’پپا‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ این ڈی اے کے ہی قائدین نے تسلیم کرلیا ہیکہ راہول گاندھی نے اپنے سیاسی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے مودی کے پپو سے ان کے پپا بن گئے ہیں۔ اس طرح کے خیال اور تبصرے سے سیاسی نوک جھونک کا حصہ متصور ہوتے ہیں۔ جہاں تک قومی سیاست میں صدر کانگریس کے اہم رول کا سوال ہے یہ عام انتخابات 2019ء کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے میں تاملناڈو کے لیڈر ڈی ایم کے صدر اسٹالین نے پہل کی ہے۔ ان کی یہ فراخدلی کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئی خاص کر قومی سطح پر عظیم اتحاد کا حصہ بننے والی سیاسی پارٹیوں کے بعض قائدین نے راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانے پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کا حسن یہی ہیکہ یہاں اپنی پسند کا برملا اظہار کرنے کی آزادی ہے۔ سیاسی گوشوں میں جمہوریت اور مساوات کا جھنڈا بلند کرنے والوں کو آئندہ لوک سبھا انتخابات کی تیاری بھی اس نہج پر کرنی ہوگی کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ کیلئے ابھی سے ایک لیڈر کو عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ ملک کا ہر رائے دہندہ اپنے آنے والے وزیراعظم کو قریب سے دیکھ سکے اور اس کو پسند یا ناپسند کرتے ہوئے فیصلہ کرنے کا تہیہ کرسکے۔ ریاستی سطح پر تلنگانہ قائدین نے خود کو اب عقل کل سمجھنے کی تباہ کن خبط کا شکار ہونے کا ثبوت دینا شروع کیا ہے مگر یہ قائدین وقت آنے پر اپنا موقف بھی بدل سکتے ہیں۔ جیسا کہ ٹی آر ایس سربراہ کے چندرشیکھر راؤ ایک وقت شہر حیدرآباد کی مقامی جماعت کے قائدین پر شدید تنقیدیں کیا کرتے تھے آج ان کی مداح سڑائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ اس فرینڈلی موقف کے درپردہ کیا راز پنہاں ہے یہ عوام بخوبی جانتے ہیں۔ مفادپرستی کا سیاسی سفوف بیچنے والے یہ قائدین سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے تلنگانہ عوام کو بے خوف بنانے میں کامیاب حاصل کرلی اس لئے مخالفین کے خلاف جتنی زبان درازی کی جائے اس سے ان کا کچھ برا ہونے والا نہیں ہے۔ کسی سے انتقام کی آگ میں سیاسی فرینڈلی پارٹیوں میں کوئی سیاست کا منظر بدلنے جارہا ہے لیکن آنے والے دنوں میں قومی سیاست کا منظر بدلنے جارہا ہے تو اب میڈیا خاص کر سوشیل میڈیا اتنا مضبوط ہوتا جارہا ہیکہ وہ منٹوں میں ان فرینڈلی لیڈروں کے وعدوں کی کیسٹ سنا سنا کر آپ کو لوک سبھا انتخابات آنے تک عوام سے دور کردے گا۔ صدر کانگریس کی حیثیت سے راہول گاندھی کا سیاسی قد اونچا ہورہا ہے۔ قومی قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے کی ذمہ داری تفویض کرنے کیلئے بھی سے ماحول سازگار بنایا جارہا ہے۔ ایسے میں کانگریس قائدین کو مخالفین کی سازشوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ آئندہ پانچ ماہ سرگرم سیاست میں ایک طویل وقت ہوتا ہے اس وقفہ کے دوران حالیہ اسمبلی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنے والی بی جے پی اپنی چال کو تیز کرسکتی ہے۔ ایسے میں کانگریس کو دیگر ہمخیال جماعتوں کو قریب کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے انتخابات کے بعد کانگریس کی حلیف پارٹیوں نے بھی راہول گاندھی کی خوبیوں کو تسلیم کرلیا ہے۔ مرکز میں بی جے پی لیڈر نریندر مودی کا کوئی متبادل نہ ہونے کا جو تاثر پیدا کردیا گیا تھا اب اس کا جواب تیار ہے تو اس جواب کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
سی بی آئی کی افادیت اور اعتبار
سی بی آئی کی افادیت اور اعتبار کے بارے میں ان دنوں جو شبہات پیدا ہورہے ہیں اس کو مزید تقویت دینے والے فیصلہ میں سی بی آئی کی عدالت نے 2005-2006ء کے سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹر میں تمام 22 ملزمین کو بری کردیا۔ سی بی آئی کے خصوصی جج کا ادعا ہیکہ وکیل استغاثہ نے ٹھوس دستاویزی ثبوت پیش نہیں کئے۔ اس مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں سہراب الدین شیخ اور ان کی اہلیہ کوثر بانو کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کیس کا فیصلہ سامنے آیا ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ کیس کے تعلق سے جس طرح کے مجہول کارروائی کی گئی اس دن سے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ طئے شدہ فیصلہ یہ ہیکہ تمام ملزمین کو بری کردیا جائے گا۔ صدر بی جے پی امیت شاہ کو پہلے ہی بری کردیاگیا ہے۔ سی بی آئی کے خصوصی جج کا فیصلہ آنے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے خاص کر این سی پی نے الزام عائد کیا کہ کیس کے کئی گواہوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ان پر دباؤ ڈال کر انہیں جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا گیا۔ کیس کو ایک جج سے دوسرے جج اور تیسرے جج کو منتقل کرنے کے دوران کیس کو کمزور کرنے کے تمام ہنر استعمال کئے گئے۔ یہ افسوسناک حقیقت ہیکہ حکمراں طاقت نے ہر فیصلہ اپنے موافق کرنے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر واقعی انصاف کے حصول کا تقاضہ پورا کرنا ہے تو سی بی آئی کو اس فیصلہ کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع ہونا چاہئے۔ بی جے پی نے عدالت کے فیصلہ کے بعد جو ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہیکہ وہ خود کو سیاسی انتقام کا شکار پارٹی ثابت کرنے کا موقع تلاش کررہی ہے۔ اس کا ردعمل ظاہر کرتا ہیکہ ملزمین کو بچانے کیلئے کیا کچھ حربے اختیار نہیں کئے گئے ہوں گے۔ بی جے پی نے اس کیس کو اپنے قائدین اور پولیس ملازمین کے خلاف سیاسی سازش قرار دیا۔ گجرات کے امیج کو خراب کرنے کیلئے کانگریس نے سہراب الدین شیخ فرضی کیس کو عدالتوں میں گھسیٹ کر بے قصور افراد کو مجرم ٹھہرایا۔ اب سی بی آئی کی خصوصی عدالت سے ان جونیر لیول کے پولیس عہدیداروں کو راحت ملی ہے۔ بی جے پی کو اگر واقعی اپنی ایمانداری کا احساس ہے تو اسے بہت جلد یہ بھی احساس ہونا چاہئے کہ اس نے اس ملک کے قانون اور انصاف کا گلہ گھونٹنے کیلئے درپردہ کیا سازشیں کی تھیں۔