راہل ذات او رمذہب کے نام پر ملک کو تقسیم نہ کریں:شاہنواز

پٹنہ، 11 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی ترجمان سید شاہنواز حسین نے آج کہا کہ کانگریس صدر راہول گاندھی ووٹ کے لئے فرضی سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر ذات اور مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم نہ کریں۔ شاہنواز حسین نے یہاں پارٹی کے ریاستی دفتر میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جب جب الیکشن آتا ہے تب راہول گاندھی کو مسلمانوں کی یاد آتی ہے ۔ سپریم کورٹ نے مذہب اور ذات کی بنیاد پر سیاست نہیں کرنے کا حکم دیا تھا لیکن فرضی سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے راہول گاندھی آج مسلم دانشوروں کو خطاب کریں گے ۔ انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ راہول گاندھی کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ دانشوروں کی بھی کوئی ذات ہوتی ہے کیا؟ بی جے پی ترجمان نے الزام لگایا کہ راہول گاندھی ووٹ کے لئے مذہب اور ذات کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس کوٹے کے ایک وزیر نے ملک کے ہر ضلع میں شرعی عدالت قائم کرنے کی وکالت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس صدر راہول گاندھی اور یو پی اے کی چیرپرسن سونیا گاندھی کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ شرعی عدالت پر ان کی اور کانگریس پارٹی کا موقف کیا ہے ۔؟ شاہنواز حسین نے کہا کہ ملک میں کانگریس کے ساٹھ سال برس تک حکومت کرنے کے بعد بھی مسلمان پسماندہ ہیں۔ بنکروں کے یہاں بجلی ابھی تک نہیں پہنچ سکی تھی لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے چار سال کے دور میں ہی انہیں بجلی فراہم کرادی ہے ۔

اقلیتی اداروں میں ایس سی ریزرویشن کا مطالبہ غیر آئینی :پروفیسرطاہر محمود
نئی دہلی 11 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) اقلیتی اداروں میں شیڈولڈ کاسٹ ریزرویشن کا مطالبہ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ممتاز ماہر قانون پروفیسرطاہرمحمود نے آج کہاہے کہ آئین اور عدالتی فیصلوں کے تحت اقلیتی اداروں میں درج فہرست ذاتوں کیلئے ریزرویشن لازمی نہیں ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین نے یواین آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1992 کے اپنے جس فیصلے میں اقلیتی اداروں میں اقلیتی طلباء کیلئے پچاس فیصد سیٹیں محفوظ رکھنے کی بات کہی تھی اسی میں عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ باقی ماندہ سیٹیں ’’خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر‘‘بھری جائیں اس لئے اس عدالتی فارمولے میں درج فہرست ذاتوں کیلئے ریزرویشن کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قومی اقلیتی کمیشن کے اپنے دور صدارت میں انہوں نے کمیشن کی طرف سے سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی اس وضاحت پر مبنی میمورنڈم جاری کیا تھا جسے مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو بھیج دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے بعد کے فیصلوں میں سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ اقلیتوں کے لئے محفوظ پچاس فیصد سیٹوں کی بات کوئی ”حدّ آخر” متعیّن نہیں کرتی بلکہ کسی ریاست میں اقلیتوں کی آبادی کے حساب سے ان کیلئے محفوظ سیٹوں کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر طاہر محمود نے کہاکہ ”پی اے انعام دار بنام ریاست مہاراشٹر”( 2005) کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئین کی دفعہ15 میں ایک شق بڑھاکر یہ واضح کردیا گیا تھا کہ حکومت اپنی ریزرویشن پالیسی عام اداروں میں نافذ کرسکتی ہے ، اقلیتی تعلیمی اداروں میں نہیں۔

انہوں نے مزید بتا یا کہ اس ترمیم کی بنا پرہی بمبئی ہائی کورٹ نے پچھلے سال ایک واضح فیصلہ سنایا تھا کہ اقلیتی اداروں میں درج ذیل فہرست ذاتوں کے لئے ریزرویشن لازمی نہیں ہے ۔ اس کے خلاف ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی جس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا ہے ۔
پروفیسر محمود نے کہا کہ اس سلسلے میں آئینی اور قانونی حیثیت بالکل واضح ہے اس لئے علی گڑھ اور جامعہ میں شیڈیولڈ کاسٹ ریزرویشن کا مطالبہ کرنے والے اور کوئی راستہ نہ پاکر انکی اقلیتی حیثیت ہی سے انکار کرتے ہیں لیکن آج کی تاریخ میں یہ دونوں مطلق اقلیتی ادارے ہیں کیونکہ انکی اس حیثیت کو چیلنج کرنے والے مقدمات ابھی تک فیصل نہیں ہوئے ۔

اگر ساٹھ سال پہلے بنکروں اور دست کاروں کے گھروں میں بجلی پہونچ گئی ہوتی تو آج ان کی حالت کچھ اور ہی ہوتی ۔
انہوں نے کہاکہ بی جے پی کا یہ عہد ہے کہ ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے ۔