رام مندر کو کھولنا راجیو گاندھی کی غلطی ‘ بابری مسجد کی شہادت ’ غداری‘

منڈل کمیشن کی سفارشات سے سماجی نا انصافی میں کمی ۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی کتاب میں ادعا

نئی دہلی 28 جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) ایودھیا میں رام جنم بھومی مندر کی جگہ کو کھولنا سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا غلط فیصلہ تھا اور بابری مسجد کوشہید کرنا انتہائی غدارانہ حرکت تھی جس کے نتیجہ میں ہندوستان کا امیج متاثر ہوا ہے ۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے اپنی یادداشتوںپر مشتمل کتاب میں یہ بات کہی ہے ۔ صدر جمہوریہ کی کتاب ’’ پریشان کن برس 1980 – 96 ‘‘ میں یہ تحریر کیا ہے ۔ اس کتاب کی رسم اجرا نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری کے ہاتھوں عمل میں آئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رام جنم بھومی مندر کو یکم فبروری 1986 کو کھولنا شائد ایک اور فیصلہ کی غلطی تھی ۔ عوام کا یہ احساس تھا کہ اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا ۔ صدر جمہوریہ نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ بابری مسجد کو شہید کرنا بالکلیہ غداری والی حرکت تھی ۔ یہ بالکلیہ بے سمجھ ‘ کسی مذہبی مقام کی تباہی تھی اور اس کا مقصد صرف سیاسی مقاصد کی تکمیل تھا ۔ اس سے ہندوستان اور بیرونی ممالک میں مسلم برادری کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ایک روادار ‘ کثرت میں وحدت والے ملک کی حیثیت سے ہندوستان کا امیج تباہ ہوگیا ہے ۔ مکرجی نے کہا کہ منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری کے نتیجہ میں سماج میں نا انصافی کم ہوئی ہے تاہم اس کے نتیجہ میں ہماری آبادی کے مختلف طبقات میں تقسیم بھی ہوئی ہے پرنب مکرجی نے کہا کہ 1989-91 کا وقت ایک ایسا مرحلہ تھا جو تشدد اور ہندوستانی سماج میں نفرت کی تقسیم کا دور تھا ۔

 

اس وقت میں جموں و کشمیر میں تخریب کاری اور سرحد پار سے دہشت گردی کاسلسلہ شروع ہوا ‘ رام جنم بھومی مندر ۔ بابری مسجد مسئلہ نے قوم کو دہلا کر رکھ دیا ۔ بالآخر ایک خود کش بمبار نے راجیو گاندھی کی زندگی کو اچانک اور انتہائی اندوہناک انداز میں 21 مئی 1991 کو ختم کردیا ۔ صدر جمہوریہ نے تحریر کیا ہے کہ وشوا ہندو پریشد کی جانب سے عوام میں مندر کیلئے اینٹیں جمع کرنے اور انہیں جلوس کی شکل میں ایودھیا لانے کیلئے جو مہم چلائی گئی تھی اس کے نتیجہ میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی ۔ شاہ بانو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ راجیو گاندھی کی کارروائیوں نے ایک ماڈرن شخص کی حیثیت سے ان کاامیج متاثر کردیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ شاہ بانو فیصلہ اور مسلم خواتین ( تحفظ و حقوق برائے طلاق ) بل سے ان پر تنقیدیں ہوئیں اور ان کا امیج متاثر ہوا ہے ۔ تاہم اس وقت کی کانگریس حکومت نے مسلم خواتین کے تحفظ سے متعلق قانون 1986 میں تیار کیا ۔ اس قانون میں سب سے اہم گنجائش یہ تھی کہ مسلم خواتین کو طلاق کی صورت میں عدت کے وقت تک کا نفقہ ادا کیا جانا ضروری ہوگیا ۔ پرنب مکرجی نے کہا کہ راجیو گاندھی پر اس لئے تنقیدیں ہوئیں کہ وہ قریبی دوستوں اور مشیروں پر زیادہ انحصار کر تے تھے جنہوں نے نام نہاد ’ بابا لوگ ‘ حکومت قائم کرلی تھی ۔ مکرجی نے تحریر کیا کہ راجیو گاندھی نے 1989 لوک سبھا انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی تھی وہ بوفورس مسئلہ کی وجہ سے غیر موثر ہوگئی حالانکہ ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیںہوسکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری کرکے وی پی سنگھ اپنی حکومت کے مسیحا ثابت ہوئے ۔ ان سفارشات کے ذریعہ دیگر پسماندہ طبقات کو سرکاری ملازمتوں اور مرکزی جامعات میں تحفظات فراہم کئے گئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام کے نتیجہ میں سماجی نا انصافی میں کمی ہوئی تاہم اس کے نتیجہ میں سماج کے مختلف طبقات میں دوریاں بھی پیدا ہوئیں۔

 

وزارت عظمیٰ کی چاہت کبھی نہیں تھی۔ پرنب مکرجی کا دعویٰ
راجیو گاندھی کے ذہن میں غلط فہمی پیدا کرنے افواہ پھیلائی گئی ۔ صدر جمہوریہ کی یادو پر مشتمل کتاب میں وضاحت

نئی دہلی۔/28جنوری، ( سیاست ڈاٹ کام ) صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے طویل عرصہ سے جاری قیاس آرائیوں کے باب کو بند کردیا کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد وہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی خواہش رکھتے تھے اور اس طرح کی کہانیوں کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا۔ اپنی یادوں کے نقوش پر مشتمل تصنیف ہنگامہ خیز سال 1980-96 کی دوسری جلد کی نائب صدر جمہوری حامد انصاری کے ہاتھوں رسم اجرائی کے موقع پر پرنب مکرجی نے کہا کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد یہ کہانی پھیلائی گئی کہ وہ عبوری وزیر اعظم بننا چاہتے تھے۔ اور میں نے دعویٰ پیش کرتے ہوئے سرگرم کوشش جو کی تھی محض راجیو گاندھی کے ذہن میں غلط فہمی پیدا کرنے کیلئے ’ بے پرکی‘ اُڑائی گئی تھی جو کہ بعید از حقیقت تھی۔ صدر جمہوریہ نے اپنی تصنیف میں یہ انکشاف کیا کہ وزارت عظمیٰ کے بارے میں انہوں نے راجیو گاندھی سے ایک باتھ روم میں بات چیت کی تھی۔ انہوں نے  بتایا کہ چونکہ وقت بہت کم تھا اور میں راجیو گاندھی سے بات چیت کرنا چاہتا تھا اور میں اسوقت سوگوار جوڑے ( راجیو ۔ سونیا گاندھی ) کے قریب پہنچا اور راجیو کے کاندھے کو مس کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ مجھے ان سے انتہائی ضروری کام ہے اور وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قریب میں واقع باتھ روم کی طرف چل پڑے تاکہ کوئی تیسرا شخص ان کی بات چیت میں دخل اندازی نہ کرے۔دونوں کے درمیان سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال اور پارٹی قائدین کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا گیا کہ انہیں ( راجیو ) وزیر اعظم کی حیثیت سے نامزد کیا جائیگا

جس پر وہ آمادہ ہوگئے اور میں نے باتھ روم سے باہر آکر راجیو گاندھی کے فیصلہ سے ہر ایک کو واقف کروادیا گیا۔ بعد ازاں راجیو گاندھی کی کابینہ سے علحدگی اور ایک نئی پارٹی کی تشکیل کیلئے رونما حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے پرنب مکرجی نے یہ اعتراف کیا کہ انہیں یہ محسوس ہوا تھا کہ راجیو گاندھی ان سے ناخوش ہیں اور ان کے حلقہ بگوش قائدین کے ساتھ ناچاقی پیدا ہوگئی تھی جس کے باعث انہیں ( پرنب ) باہر راستہ دکھایا گیا تھا۔ پرنب مکرجی نے کہا کہ میں نے جب یہ خود محاسبہ کیاکہ کابینہ سے علحدگی اور پارٹی سے اخراج کیوں کیا گیا جس پر میں جواب نے تلاش کیا تو میری غلطی عیاں ہوگئی۔ کیونکہ اسوقت میرے خلاف راجیو گاندھی کے کان بھرے جارہیتھے اور مایوسی کے عالم میں کانگریس کے خلاف جانا پڑا۔ واضح رہے کہ صدر جمہوریہ نے اپریل 1986 میں کانگریس چھوڑ کر ایک نئی جماعت راشٹریہ سماجوادی کانگریس تشکیل دی تھی۔تاہم پرنب مکرجی کا یہ تاثر تھا کہ انہیں سیاسی جماعت تشکیل دینے سے گریز کرنا چاہیئے تھا۔ کیونکہ انہیں بہت جلد یہ محسوس ہوگیاکہ وہ عوامی لیڈر نہیں ہیں اور جن لیڈروں نے کانگریس چھوڑ دیا تھا وہ شاذ ونادر ہی کامیاب ہوئے ہیں اور آزمائش بھرے سال 1986-89 کے دوران مجھے کانگریس پارٹی اور حکومت کیلئے کچھ اعانت کرنا چاہیئے تھا کیونکہ اسوقت حالات کا رُخ راجیو گاندھی کے خلاف جارہا تھا لہذا میں صرف اندرون دو سال کانگریس میں واپس آگیا۔پرنب مکرجی نے کہاکہ راجیو گاندھی سیاست میں داخلے کیلئے آمادہ نہیں تھے لیکن حالات انہیں 40سال کی عمر میں وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے پر مجبور کردیا۔جس کے بعد راجیو گاندھی مختار کل بن گئے۔ اور کانگریس میں معمر لیڈوں کو اپنے منصوبوں میں رکاوٹ تصور کرتے ہوئے ہٹادینا چاہتے تھے۔ ان کی نظر مستقبل پر تھی اور ہندوستان میں جدید ٹکنالوجی کا فروغ اور بیرونی سرمایہ کاری کا استقبال کے علاوہ مارکٹ معیشت کو توسیع دینے کے خواہشمند تھے۔اس کے برعکس میں ( پرنب مکرجی ) ایک قدامت پرست اور روایت پسند سیاسی لیڈر تھا۔جوکہ عوامی شعبہ کے اداروں کا پرزور حامی رہا۔ فراخدلانہ معیشت کے خلاف تھا اور صرف غیر مقیم ہندوستانی کی سرمایہ کاری کے حق میں تھا اور یہ نظریاتی اختلافات کی وجہ بن گئے۔