رامناتھ کووند کو ٹی آر ایس کی تائید تشویشناک

مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا چیف منسٹر پر الزام ، خواجہ فخر الدین کا بیان
حیدرآباد ۔ 27 ۔ جون : ( سیاست نیوز ) : صدر تلنگانہ پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ محمد خواجہ فخر الدین نے مسلم تحفظات کی مخالفت کرنے والے آر ایس ایس نظریات کے حامل صدارتی امیدوار رامناتھ کووند کی ٹی آر ایس کی جانب سے تائید کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر پر الزام عائد کیا ہے ۔ محمد خواجہ فخر الدین نے کہا کہ 12 فیصد مسلم تحفظات کے لیے کے سی آر سنجیدہ نہیں ہے ۔ جب کہ کانگریس پارٹی نے اسمبلی اور کونسل میں پیش کئے گئے مسلم تحفظات بلز کی بھر پور تائید کرتے ہوئے یہ ثبوت دیا ہے کہ کانگریس پارٹی اقلیتوں کی تعلیمی معاشی سماجی پسماندگی دور کرنے کے حق میں ہے 4 فیصد مسلم تحفظات بھی فراہم کرتے ہوئے عملی ثبوت بھی دیا ہے ۔ جس سے تعلیم اور ملازمتوں میں لاکھوں مسلمانوں کو فائدہ بھی ہوا ہے ۔ لیکن ٹی آر ایس مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے معاملے میں مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کررہی ہے ۔ ایک طرف مرکز سے آرپار کی لڑائی لڑنے یا سپریم کورٹ سے رجوع ہو کر مسلمانوں سے کئے گئے وعدے کو پورا کرنے کا وعدہ کیا جارہا ہے ۔ دوسری طرف مسلم تحفظات کی مخالفت کرنے والے بی جے پی کے صدارتی امیدوار رامناتھ کووند کی تائید کرتے ہوئے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جارہا ہے ۔ رامناتھ کووند کا پس منظر آر ایس ایس پر مشتمل ہے ۔ انہوں نے بحیثیت بی جے پی ترجمان مسلمانوں کو 10 فیصد اور عیسائی طبقہ کو 5 فیصد تعلیم اور ملازمتوں میں تحفظات فراہم کرنے کی مخالفت کی تھی ۔ آر ایس ایس نظریات کے حامل شخص کو ملک کے جلیل القدر عہدے پر فائز کرنے میں چیف منسٹر تلنگانہ ہندوتوا طاقتوں کی مدد کررہے ہیں جو ملک کے جمہوری ڈھانچے اور سیکولر نظام کو نقصان پہونچانے کی شروعات کا حصہ ہے ۔ جس میں کے سی آر بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کی ایسی کونسی مجبوری ہے وہ وزیراعظم نریندر مودی کی جی حضوری کرنے کے لیے آمادہ ہورہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے ۔ بی جے پی اور ٹی آر ایس میں خفیہ معاہدہ ہوچکا ہے ۔ جس کی وجہ سے کے سی آر تلنگانہ کے مفادات اور اقلیتوں کے جذبات کو فراموش کرتے ہوئے فرقہ پرستی کو گلے لگا رہے ہیں ۔ محمد خواجہ فخر الدین نے کہا کہ چیف منسٹر نے نوٹ بندی کی تائید کی تھی ۔ مگر اس سے ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے ۔ ریاست میں معاشی بحران آج بھی جاری ہے ۔ بینکوں اور اے ٹی ایم میں فنڈس کی قلت ہے ۔ جی ایس ٹی کی تائید کی گئی ۔ تلنگانہ کی جانب سے پیش کی گئی 34 تجاویز کو مرکزی حکومت نے نظر انداز کردیا ۔ جی ایس ٹی پر عمل آوری سے تلنگانہ کو 12 ہزار کروڑ روپئے کا نقصان ہورہا ہے ۔ پھر بھی مرکز کے ہر فیصلے کی اندھی تائید کرنا دونوں جماعتوں میں خفیہ اتحاد کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے ۔۔