رافیل معاملت کا سچ ‘ حکومت کا جھوٹ

رافیل معاملت کا سچ ‘ حکومت کا جھوٹ
معروف ٹی وی اینکر و تجزیہ نگار کرن تھاپر کے الفاظ میں رافیل معاملت بی جے پی کا بوفورس بنتی جا رہی ہے ۔ اس معاملہ میں حکومت کی غلط بیانیاں اچانک ہی آشکار ہوگئی ہیں۔ فرانس کے سابق صدرفرینکوئی اولاند نے جو بیان جاری کیا ہے اس پر حکومت کے حلقوں میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور حکومت کو ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے مزید کئی جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں۔ رافیل معاملت نے یہ واضح کردیا ہے کہ کرپشن کے معاملہ میں بی جے پی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے اور وہ بھی کرپشن کی آڑ میں ہی سیاست کرتی ہے اور اپنی پسند کے صنعتکاروں اور تاجروں کو فائدہ پہونچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتی ۔ اس کے بدلے میں بی جے پی کو بڑی موٹی رقومات کے چندے حاصل ہوتے ہیںاور ان ہی رقومات کی بدولت بی جے پی ایک کے بعد دوسری ریاست میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی جاتی ہے ۔ چند ماہ قبل جب کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے رافیل معاملت پر سوال اٹھایا تھا اور اس میں کرپشن کے الزامات عائد کئے تھے اس وقت بہت ہی کم لوگ ایسے تھے جنہیں راہول کے الزامات میں کسی طرح کی سچائی نظر آئی تھی ۔ بی جے پی کا زر خرید میڈیا اور اس کے دلالوں نے تو اس معاملت پر سوال کرنے پر راہول گاندھی کا مذاق بنانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ کہا یہ جانے لگا تھا کہ کانگریس اور اس کے قائدین کے پاس حکومت کو نشانہ بنانے کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے اسی لئے محض اپنی ناکامی چھپانے اس معاملت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے تاہم گذرتے وقتوں اور بدلتے حالات نے یہ واضح کردیا ہے کہ راہول گاندھی نے سب سے پہلے جو مسئلہ اٹھایا تھا وہ کوئی محض الزامات نہیں تھا بلکہ نریندرمودی حکومت کے کرپشن کا پردہ فاش تھا اور اس کی ڈوغلی پالیسی کو آشکار کرنے والا سچ تھا ۔ فرانس کے سابق صدر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کردیا کہ رافیل معاملت میں خانگی پارٹنر کو منتخب کرنے کا حق فرانس کو نہیں دیا گیا تھا اور حکومت ہند نے ہی انیل امبانی کی کمپنی کو بزنس پارٹنر بنانے پر اصرار کیا تھا ۔
حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی ‘ وزیر دفاع نرملا سیتارامن اور وزیر فینانس ارون جیٹلی نے ایک سے زائد موقعوں پر اس تعلق سے غلط بیانی کی اور یہ دعوی کیا تھا کہ اس معاملت میں کوئی خانگی شراکت دار نہیں ہے بلکہ یہ حکومت سے حکومت کے مابین ہوا معاہدہ ہے ۔ وزیراعظم مودی نے تو یہ بیان خود پارلیمنٹ میں دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ دو ذمہ دار ملکوں کے مابین طئے پایا معاہدہ ہے ۔ نرملا سیتارامن نے اور ارون جیٹلی نے بھی یہ دعوی کیا تھا کہ اس معاملت میں کوئی خانگی بزنس پارٹنر نہیں ہے بلکہ یہ حکومتوں کے درمیان طئے پایا معاہدہ ہے ۔ اب اگر اس مسئلہ پر اصرار نہ بھی کیا جائے کہ خانگی بزنس شراکت دار کو منتخب کرنے کیلئے کس فریق نے اصرار کیا تھا تب بھی مودی ‘ سیتارامن اور جیٹلی کا یہ دعوی غلط ثابت ہوگیا کہ یہ دو حکومتوں کے مابین طئے پایا معاہدہ تھا ۔ سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کو اس معاملت سے دور کرتے ہوئے محض مودی کی پسند اور ایما پر انیل امبانی کو اس معاملت میں شراکت دار بنایا گیا اور انہیں لاکھوں کروڑ روپئے کا فائدہ پہونچایا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ جب اس معاملت میںکوئی غلط کام نہیں ہوا ہے ‘ کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی ہے اور نہ کوئی کرپشن ہوا ہے تو پھر وزیر اعظم کو ‘ وزیر دفاع کو اور وزیر فینانس کو اس معاملت کے تعلق سے غلط بیانی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تھی ۔ کیوں ملک کو اس پر گمراہ کیا گیا ؟ ۔
اس سچائی کے سامنے آجانے اور این ڈی اے حکومت کے جھوٹ کا پردہ فاش ہوجانے کے باوجود حکومتی نمائندے سابق صدر فرانس کے بیان کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیںاور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ بیان درست نہیں ہے ۔ جب ملک میں ہزاروں کروڑ روپئے کا الٹ پھیر کرکے فرار ہونے والے وجئے مالیا نے انکشاف کیا تھا کہ ملک سے فرار ہونے سے قبل انہوں نے جیٹلی سے ملاقات کی تھی تو یہ کہا گیا کہ مالیا مجرم ہے اور اس کے بیان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز عذر تھا ۔ تحقیقاتی ایجنسیاں ملزمین کے بیانات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھتی ہیں اور انہیں کے اقبالی بیانات کو عدالتوں میں بنیاد بنایا جاتا ہے ۔ اب سابق صدر فرانس کے بیان کی صداقت پر سوال کیا جا رہا ہے ۔ یہ در اصل حکومت اور وزیر اعظم ‘ وزیر فینانس اور وزیر دفاع کے جھوٹ کو چھپانے کی ایک انتہائی افسوسناک کوشش ہے ۔ حکومت کا جھوٹ بے نقاب ہوگیا ہے اور اب رافیل کی ساری سچائی کو منظر عام پر لانا ضروری ہوگیا ہے ۔