رافیل مسئلہ اور سپریم کورٹ
ہندوستان میں حکمرانوں کی بدعنوانیوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا اگر قانونی دیانتداری کا مظاہرہ ہوتا تو اب تک کئی حکمرانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا جاتا۔ اس ملک کا یہی بڑا المیہ ہے کہ یہاں جو کوئی برسراقتدار ہوتا ہے وہ ہاتھ کی صفائی میں مہارت رکھتا ہے اور بعض معاملوں میں بدعنوانیوں کا چرچا ہوتا بھی ہے توہ عدالتوں کی چارہ جوئی سے بچ بھی نکل جاتا ہے۔ قانون کا شکنجہ ان تک پہنچ نہیں پاتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی طرح جس کا اقتدار اس کا ہی قانون چلتا ہے۔ اس کیلئے نہ کوئی ہتھکڑی بنتی ہے اور نہ کوئی جیل کی سلاخ تیار ہوتی ہے۔ جیل کی فصیلیں تو صرف ان غریب عوام کے لئے ہوتی ہیں جو دو وقت کی روٹی کیلئے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بیروزگاری، فاقہ کشی اور سماجی خرابیوں کا شکار افراد ہی مستعجب سزاء ہوتے ہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ نے رافیل معاہدہ کیس میں نریندر مودی حکومت کو کلین چٹ دیدی ہے اور یہ احساس ظاہر کیا ہیکہ اس ملٹی بلین Multi-Billion ڈالر کے معاہدہ میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی قسم کی طرفداری سے کام لیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ واضح کردیا کہ فرانس کی ہوابازی صنعت سے 36 رافیل لڑاکا جٹس طیاروں کی خریداری میں حکومت نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ ملٹی بلین کے اس معاہدہ میں ہوئی بدعنوانیوں کو اس طرح صفائی کے ساتھ پوشیدہ رکھا گیا کہ سپریم کورٹ تک سچائی کی ہلکی سی بھی بھنک لگنے نہیں دی گئی۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر اپوزیشن کانگریس ہی ماتم کرتے دکھائی دے رہی ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے سوال اٹھایا کہ آخر سپریم کورٹ کو سی اے جی رپورٹ کے بارے میں گمراہ کس نے کیا۔ ان کا کہنا ہیکہ وہ اس بدعنوانی کو باہر لانے تک خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ غور طلب امر یہ ہیکہ جب سپریم کورٹ نے رافیل معاہدہ کی تحقیقات کرانے کا حکم دینے سے انکار کردیا ہے تو اس بدعنوانی کو بے نقاب کرکے بھی راہول گاندھی کیا کرسکیں گے۔ مودی حکومت نے جس چالاکی سے رافیل معاہدہ کے تعلق سے سی اے جی کا سہارا لیا اور پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی (پی اے سی) کو سی اے جی کی جانب رپورٹ پیش کرنے کا ادعا پیش کیا یہ کھیل اپوزیشن کانگریس کیلئے ناقابل فہم بن گیا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہیکہ عدالت کے سامنے جو مواد پیش کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہیکہ حکومت نے معاہدہ کی قیمت کو منکشف نہیں کیا ہے۔ پارلیمنٹ کو بھی اس کی خبر نہیں دی گئی کیوں کہ یہ ملک کی سلامتی کا معاملہ تھا۔ مسئلہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ہی رافیل معاہدہ کے معاملہ کو راز میں رکھا گیا۔ عدالت کو اپوزیشن کے دعویٰ اور حکومت کے موقف میں کچھ سہو ہوجانے کا گمان پیدا ہوا جس کی بنیاد پر کیس کو مسترد کردیا گیا جب حکومت نے سارا منظرنامہ ہی تیار کرلیا ہے تو سپریم کورٹ میں وکیل اور کارکن پرشانت بھوشن کی دلیلیں کون سنے گا۔ حقائق کو دفن کرنا ان لوگوں کیلئے آسان ہوتا ہے جو اختیار کل کے مالک ہوتے ہیں۔ اب اس معاملہ کو پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کرنے کا عزم کرنے والی کانگریس کو رافیل معاہدہ کی دستاویزات کے ساتھ ٹھوس پیروی کرنی پڑے گی اور پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلہ کو اٹھایا جائے گا لیکن وہ حکومت کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے میں کامیاب ہوسکے گی یہ ناقابل قیاس ہے۔
برطانیہ میں بریگزٹ کا تنازعہ
برطانیہ میں بھی اب باولے پن کا شکار سیاستداں پیدا ہورہے ہیں۔ کل تک ان لوگوں کو سمجھدار، معاملہ فہم اور سیاسی خوبیوں کے مالک سمجھا جاتا تھا مگر یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی کے بعد انگلینڈ کی سیاسی فضاء میں باولے پن کا بھی اثر دیکھا جارہا ہے۔ بریگزٹ مسئلہ پر لندن کی پارلیمنٹ میں اتھل پتھل کرنے کی کوشش کرنے والے قائدین کو بہرحال وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ناکامی ہوئی ہے۔ بریگزٹ مسئلہ پر برطانیہ میں پیدا ہونے والے اختلافات کو دیکھتے ہوئے امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ برطانوی عوام کو عاجلانہ انتخابات کا سامنا ہوگا مگر تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم تھریسامے کی کامیابی کے بعد اس حکومت کو سال 2022ء تک استحکام حاصل ہوا۔ تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے فوری بعد یوروپی یونین چوٹی کانفرنس میں شرکت کیلئے برسلس پہنچی تھریسامے نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات سے قبل اپنے اختیارات دوسرے کنزرویٹو لیڈر کے حوالے کریں گی۔ تھریسامے کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا اس لئے کرنا پڑا تھا کیونکہ گذشتہ سال یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی پر برطانیہ کے اپوزیشن گوشوں میں ناراضگی پیدا ہوئی تھی اور برطانیہ میں بحران پیدا ہوجانے کا اندیشہ بڑھ گیا لیکن تحریک کے خلاف ووٹ ڈالنے والے 200 ارکان نے اپنے ملک کو بحران سے بچا لیا ہے۔ جون 2016ء میں قومی ریفرنڈم کے ذریعہ برطانیہ کے عوام کی معمولی اکثریت نے یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی کیلئے ووٹ دیا تھا لیکن یہ ووٹ برطانیہ کے وزیراعظم کیمرون کیلئے خطرہ بن گیا اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا تھا کیونکہ برطانیہ کا یوروپی یونین سے علحدہ ہوجانا تنازعہ کا باعث بن گیا لیکن یوروپی یونین نے برطانیہ کی علحدگی کیلئے جو قواعد متعین کئے تھے اور دو سال کی مہلت دی تھی اب یہ مہلت ختم ہونے کیلئے صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں تو اس موضوع پر تلخ بحث و مباحث کے ذریعہ برطانیہ کی سیاسی تاریخ کو مزید متنازعہ بنایا جاتا ہے تو مستقبل میں بدامنی کی کیفیت میں اضافہ ہوگا۔ فی الحال وزیراعظم تھریسامے نے تحریک عدم اعتماد کو جیت تو لیا ہے مگر وہ اس علحدگی معاہدہ کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ انتشار پسندانہ معاہدہ خود ان کے حامیوں کیلئے بھی ناقابل قبول بن گیا ہے اب دیکھنا یہ ہیکہ اس معاہدہ کی مخالفت کرنے والے تنہا رہ جاتے ہیں یا برطانیہ ہی کو یکاوتنہا کردیا جاتا ہے۔