رافیل اسکام کے بعد حکومت کا طیاروں کی خریدی سے گریز

لڑاکا طیاروں کی کمی سے دوچار فضائیہ کو چیالنجس کا سامنا ، دفاعی تیاریوں پر سوالیہ نشان
نئی دہلی 25 فروری (سیاست ڈاٹ کام) دو انجن والے رافیل لڑاکا طیارے کے سودے پر اپوزیشن کی تنقیدوں کے بعد حکومت پس و پیش میں دکھائی دے رہی ہے اور اسی کے سبب اس نے گزشتہ دو سال سے التوا میں پڑے ایک انجن والے ہوائی جہاز کے سودے کی فائلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کرفضائیہ سے ضروریات پر نئی تجاویز بھیجنے کو کہا ہے ۔حکومت کے فیصلے سے لڑاکو طیاروں کی کمی سے دوچار فضائیہ کیلئے چیلنجوں میں اضافہ ہوگا ہی ، دفاعی تیاریوں پر اس کی پالیسی پر سوالیہ نشان کھڑے ہونگے ۔ فضائیہ کے لڑاکا طیارے بیڑے میں 42 منظورشدہ اسکواڈرن کے مقابلے میں اب صرف 31 اسکواڈرن ہیں۔ روس سے خریدے گئے مگ -21 اور مگ -27 طیاروں کے دس اسکواڈرن کو 2022 تک سروس سے باہر کیا جانا ہے جس سے لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرن کی تعداد 20 کے قریب رہ جائے گی۔ایک اسکواڈرن میں 18 طیارے ہوتے ہیں اور ایئر فورس کو اگلے دو تین برسوں میں فرانس سے 36 رافیل کی فراہمی ہو جائے گی لیکن یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہو گا۔ ملک میں ہی بنائے جا رہے ہلکے لڑاکا طیارے ‘تیجس’ کی سپلائی کی رفتار بھی انتہائی سست ہے ۔مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے ایک سال کے اندر ہی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے ) حکومت کے فرانسیسی دفاعی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن سے دو انجن والے 126 کثیر المقاصد لڑاکا طیارے رافیل کی خریداری کے سودے کو منسوخ کر دیاتھا اور براہ راست فرانس حکومت کے ساتھ معاہدہ کرکے پوری طرح تیار 36 رافیل طیارے خریدنے کا اعلان کیا تھا۔وزیر اعظم نریندر مودی کے فرانس کے دورے کے وقت آناً فاناً میں کئے گئے اس سودے کو لے کر حکومت نے سب سے بڑی دلیل یہ دی کہ اس نے فضائیہ کی فوری ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ سودا کیا ہے ۔ وزارت دفاع نے اس سودے کے بعد اس طرح کے اشارے دیئے کہ اب فضائیہ کو دو انجن والے مزیدلڑاکا طیاروں کی ضرورت نہیں ہے اور باقی ضروریات کی تکمیل ایک انجن طیاروں سے کی جائیگی۔ اس کیلئے ایک دلیل یہ دی گئی کہ اس سے پیسے کی تو بچت ہو گی ہی اس کی ہینڈلنگ اور انتظام میں بھی خصوصیات رہے گی۔