نئی دہلی۔ 2 فروری (سیاست ڈاٹ کام) انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ اور ہجوم والے مقامات پر حملوں جیسے حربوں میں تبدیلی، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھرتی اور برصغیر ہند میں کئی دہشت گرد گروپو ںکی سرگرمیوںمیں تال میل سے ملک کی سلامتی کو سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایک نئی کتاب جس میں برصغیر ہند میں سرگرم ایسی 36 دہشت گرد تنظیموں اور گروپس کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ آئی ایس آئی حمایت والی دہشت گرد تنظیموں سے لے کر علاقائی سطح کے دہشت گرد گروپس اور بائیں بازو کی انتہا پسندی کی تفصیل موجود ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان میں سے کئی تنظیموں نے اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینے کے لئے تال میل و تعاون کا کام شروع کردیا ہے۔ اس تعاون میں اسلحہ کی سربراہی اور رقومات کی منتقلی بھی ہے۔ ہندوستان میں دہشت گرد حملوں کے طریقے ہوں یا ساری دنیا میں دہشت گرد کارروائیاں اب ان کا طرز تبدیل ہوگیا ہے۔ دور دراز کے مقامات یا غیرہجوم والے علاقوں میں بم دھماکے اور حملے نہیں کررہے ہیں بلکہ پرہجوم علاقوں کو نشانہ بنارہے ہیں یا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو استعمال کررہے ہیں تاکہ عوام الناس میں خوف و ہراس پیدا کیا جائے۔
’’جنوبی ایشیا میں انتہا پسند گروپس‘‘ کے نام سے شائع کتاب کو انسٹیٹیوٹ برائے ڈیفنس اسٹڈیز اور انالائسیس نے جاری کیا ہے۔ اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ کئی دہوں سے اس خطہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کوششیں ہوتی آرہی ہیں لیکن یہ جنگ اب تک کامیاب نہیں ہوسکی۔ دہشت گردی کی لعنت کو کچلنے میںناکام ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی سلامتی کی صورتِ حال خطرناک ہوگئی ہے۔ جنوب ایشیائی خطہ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا طریقہ تبدیل ہوگیا ہے۔ کتاب کے مصنف سکیورٹی کے ماہر سریندر کے شرما اور تحقیق کار ونشومن بہیرا نے لکھا کہ یہ دہشت گرد گروپ ہندوستان کیلئے سنگین خطرہ بن رہے ہیں۔ یہ گروپ اکثر مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لئے ہاتھ ملاتے ہیں۔ کتاب میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر پڑوسی ملکوں میں سرگرم سب سے بڑے دہشت گرد گروپس کی نہ صرف تفصیلات ہیں بلکہ ان کے موجودہ موقف کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان گروپس کو ملنے والی امداد اور ہتھیاروں اور دیگر صلاحیتوں کی تفصیل ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گروپ مستقبل قریب میں کس طرح کے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان تنظیموں میں انڈین مجاہدین، حزب المجاہدین، الامہ، یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (اُلفا)، لشکر طیبہ، جیش محمد، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ بوڈو لینڈ قابل ذکر ہیں۔ گزشتہ سال طالبان تحریک پاکستان کے اہم لیڈر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور کمانڈر ملا فضل اللہ کو منتخب کرنا پاکستان میں مستقبل کی سکیورٹی صورتحال کو تبدیل کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور افغانستان میں بھی صورتحال خطرناک ہوگی۔ مصنف شرما اور بہیرا نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں کئی بیروزگار نوجوان طالبان تحریک پاکستان میں شامل ہورہے ہیں جہاں انہیں مخالف ہند جذبات سے بھڑکایا جاتا ہے۔ پاکستان طالبان تحریک نے کشمیر اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اپنے کارکنوں کو سرگرم کردیا ہے۔ اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کتاب کے مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی جنگ نے دہشت گرد تنظیموں جیسے جیش محمد کو سائبر اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ بڑے دہشت گرد حملے کرنے کیلئے اُکسایا ہے۔ جیش محمد کے بانی مسعود اظہر نے اس کو قائم کیا تھا جنہیں 1999ء میں قندھار اغوا کے دوران ہندوستانی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔