دہشت گرد صرف دہشت گرد، اچھے بُرے کا سوال نہیں

اقوام متحدہ سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو
پنپنے نہ دینے کی اپیل
افغانی سرحد داعش، طالبان اور القاعدہ کاپسندیدہ مقام
اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ
سید اکبرالدین کا خطاب

اقوام متحدہ ۔ 26 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان نے آج سلامتی کونسل سے ایک بار پھر اپنے ان ہی خدشات کا اظہار کیا جس کا اظہار وہ عرصہ دراز سے کرتا آرہا ہے۔ ہندوستان کے مطابق بین الاقوامی برادری کی سب سے زیادہ اہم اور ترجیحی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی اپنا سر نہ ابھارے اور نہ ہی کسی بھی ملک میں اس کے محفوظ ٹھکانے ہوں۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ سید اکبرالدین نے کہاکہ دنیا میں اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد کی درجہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ دہشت گرد تو صرف دہشت گرد ہی ہوتے ہیں۔ طالبان، حقانی نیٹ ورک، القاعدہ، داعش، لشکرطیبہ، جیش محمد اور اسی قبیل کی دیگر دہشت گرد تنظیمیں صرف دہشت ہی پھیلاتی ہیں اور ان تمام کی دہشت گرد ہونے کی خود اقوام متحدہ نے بھی توثیق کی ہے۔ لہٰذا اس صورتحال میں بین الاقوامی برادری خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔ سید اکبرالدین نے درپردہ پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کا سب سے پہلا فرض یہی ہونا چاہئے کہ وہ نیا کے کسی بھی گوشہ یا کسی بھی ملک میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو پروان چڑھنے نہ دے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام تنظیموں کو صرف دہشت گرد تنظیمیں تصور کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ ان کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ انصاف پر مبنی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر افغانستان کی حالت زار کا تذکرہ بھی کیا جہاں افغانی عوام کو ہر گذرنے والے دن کے ساتھ تشدد کا سامنا ہے چاہے وہ ہاسپٹل پر کئے جانے والے حملے ہوں، اسکولوں پر، جنازے کے جلوسوں پر یا سفارتی مشنز پر کئے جانے والے حملے ہوں، یہ تمام تشویش کا باعث ہیں۔ افغانستان میں یہ تمام تخریبی کارروائیاں اتنی آسانی سے انجام دی جارہی ہیں کہ اس وقت افغانی سرحد ایسے دہشت گرد گروپس اور جرائم پیشہ تنظیموں کیلئے پسندیدہ مقام بن چکا ہے جن کے بین الاقوامی دہشت گرد اور جرائم نیٹ ورک سے روابط ہیں۔ یہ گروپس افغانستان کے وسائل کا سرقہ کررہے ہیں جو دراصل افغان عوام کی امانت ہے۔ مسٹر اکبرالدین نے مزید کہاکہ افغانستان کو غیرمستحکم کرنے میں اس کا ایک پڑوسی ملک ذمہ دار ہے۔ ان کا اشارہ ایک بار پھر پاکستان کی جانب تھا۔ اس موقع پر افغانستان کے وزیرخارجہ صلاح الدین ربانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سید اکبرالدین کے بیانات کی تائید کی اور کہاکہ پڑوسی ملک کی تخریبی کارروائیوں نے افغانستان کو کئی دہوں سے ترقی اور امن سے محروم کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کیلئے امریکہ نے جس نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے، اس سے افغانی عوام کو بھی امید کی کرن نظر آرہی ہے کہ بالآخر ایک دن ایسا آئے گا کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ نئی پالیسی میں افغانستان کو درکار اہم ترین ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے جبکہ دہشت گردوں کو حاصل سیاسی، لاجسٹیکل اور مالی تعاون بھی ختم ہوجائے گا۔ مسٹر ربانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیاء پر امریکہ کی نئی پالیسی کا سب سے اچھا حصہ وہ ہے جہاں اس بات کی طمانیت بھی دی گئی ہے کہ بین الاقوامی برادری اپنی مساعی کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک افغانستان میں مستقل امن قائم نہیں ہوجاتا۔ اس موقع پر یوروپی یونین کی نمائندگی کرتے ہوئے جون اڈمسن نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن، استحکام اور سیکوریٹی کے قیام کیلئے بین الاقوامی برادری اپنے عہد کی پابند رہے۔ دوسری طرف ایران کے اسحق الحبیب نے کہاکہ افغانستان پر فوج کشی کے دس سال بعد بھی، افغانستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک ہنوز محفوظ نہیں ہیں۔ لہٰذا میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ افغانستان میں سیکوریٹی کی ناگفتہ بہ حالت کو صرف اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے حل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ طالبان اور خراسان صوبہ کی خودساختہ دولت اسلامیہ کی جانب سے بے قصور اور معصوم شہریوں پر حملوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔