اقوام متحدہ۔ 28؍ستمبر (سیاست ڈاٹ کام)۔ امیر قطر صاحب السمو الشیخ تمیم بن حمد الثانی نے دُنیا میں دہشت گردی کے رجحان میں اضافہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری پر دہشت گردی کے بڑھتے خطرہ سے لڑنے کے لئے اپنی کوشش دوگنا کرنے پر زور دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں، جب تک عوام کو یہ قائل نہ کرادیا جائے کہ یہ جنگ اور لڑائی آپ کی جنگ ہے۔ علاقہ میں انھیں جبر و استبداد کا شکار بنانے والی حکومت قائم کرنے کے لئے شروع کردہ جنگ نہیں ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 69 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر قطر نے مشرق وسطیٰ کو درپیش کئی ایک سلگتے مسائل کا ذکر چھیڑا۔
انھوں نے خاص طور پر فلسطین، عراق اور شام کا حوالہ دیا اور بتایا کہ کس طرح ان ممالک میں رونما ہورہی تبدیلیاں اور واقعات علاقہ پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج کے اس جدید دور میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جسے دہشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ متاثرہ عرب اور اسلامی معاشروں میں دہشت گردی نے سب سے زیادہ معصوم و بے قصور عوام کو متاثر کیا ہے۔ ہمارے معاشروں کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ دہشت گرد دہشت گردی کے ذریعہ دراصل عوام کو انسانی و مذہبی تنوع سے محروم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس طرح اس خطرہ نے عوام کے حقیقی مطالبات کو پس پشت ڈال کر سطحی اور مذمتی تشریحات کے ذریعہ مذہب کو نشانہ بنایا ہے،
اس لئے ہم سب کو چاہئے کہ اس صورتِ حال و کیفیت کے خلاف لڑائی کی کوششوں کو دگنی کردیں، چاہے وہ کہیں بھی اور کسی شکل میں کیوں نہ ہو، ہمیں اس کے خاتمہ کے لئے اپنے دستیاب تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ امیر قطر کے مطابق اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دہشت گردی کو اس کے سماجی ماحول میں شکست دی جاسکتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اگر معاشرے ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو ہمیں چاہئے کہ ان کے ساتھ صاف و شفاف رویہ اختیار کریں، نہ کہ انہیں دہشت گردی یا ظالم و جابر حکومت کے درمیان کسی ایک کو منتخب کرنے کے لئے چھوڑ دیں یا پھر ان معاشروں کو دہشت گردی اور نسلی امتیاز کے درمیان کسی ایک کے انتخاب کی جانب ڈھکیل دیں۔ امیر قطر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے فکر انگیز خطاب میں پرزور انداز میں یہ بھی کہا ’’اگر لوگوں کو اس بات کا اطمینان دلانے میں ناکام رہیں کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی دراصل ان کی لڑائی ہے تو ہمیں ہرگز کامیابی نہیں مل سکتی‘‘ ۔ انھوں نے شامی باشندوں کی حالت ِ زار پر اقوام متحدہ کو توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ شامی عوام حکومت کے جبر و استبداد اور دہشت گردی دونوں سے متاثر ہیں۔
اسی طرح عالمی برادری کو مدد کے لئے تڑپنے والے عراقی عوام کی آہ و بکاہ ان کے رونے اور سسکنے کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ عراقی عوام اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کے پہلے شکار ہیں، لیکن جن لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف آواز اُٹھائی اور اس کے سامنے سینہ سپر ہوکر اسے شکست سے دوچار کیا خود کو الگ تھلگ پایا اور پھر نسلی ملیشیا، دہشت گردوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار بن گئے۔ آج عراقی عوام اپنے حقوق وقار اور آزادی کی لڑائی لڑرہے ہیں اور ان حقوق آزادی اور وقار کی برقراری نہایت ضروری ہے۔ عراقی عوام آج ایک نازک گھڑی سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما عراقی بھائیوں کی مدد کرے
اور یہ مدد ان کے ملک کے اقتدار اعلیٰ، علاقائی سالمیت اور مختلف فرقوں کے تنوع کے تحفظ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور یہ تحفظ فرقہ بندی پر مبنی تنازعات و جھگڑوں کو ختم کرکے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ امیر قطر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے احترام پر مجبور کرے۔ انھوں نے دنیا کو یاد دلایا کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں اس کی بربریت کی ہولناک تصاویر سے انسانیت لرز کر رہ گئی۔ اسرائیل نے انتہائی ظالمانہ انداز میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا، لیکن دنیا کو یاد رکھنا چاہئے کہ اقتدار کا غرور و تکبر فلسطینی عوام کی مزاحمت کو روک نہیں سکتا۔ ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ امیر قطر صاحب السمو الشیخ تمیم بن حمد بن خلیفہ الثانی نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیلی جارحیت اور اس کی بربریت کے خلاف فلسطینیوں کے حوصلوں کی ستائش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ فلسطینیوں کی مزاحمت ان کی جرأت کے لئے انھیں سلام کرتے ہیں۔
فلسطینی عوام اپنے قانونی و جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ امیر قطر نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے دیرپا حل کی ضرورت ہے، کیونکہ عارضی حل ناکام اور ناقابل قبول ثابت ہوتے ہیں۔ انھوں نے اسرائیل پر ہٹ دھرمی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ہٹ دھرمی نے ہی ہمیں اقوام متحدہ سے رجوع ہونے پر مجبور کیا ہے۔ شام کے تنازعہ پر امیر قطر نے کہا کہ ہم سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قانونی اور انسانی ذمہ داریوں کو پوری دیانت داری سے نبھائے اور شامی عوام کو حکومت کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل عام جیسے جرائم کے خلاف ان کی تائید و حمایت کرتے ہوئے مدد کریں۔ انھوں نے لیبیائی سیاسی قوتوں کو قومی مذاکرات کی راہ پر چلنے کا مشورہ دیا۔ ’’امیر قطر نے اپنے خطاب میں تیونس اور یمن کے بھی حوالے دیئے‘‘۔