بی جے پی نے دہشت گردی کے مشتبہ ملزم سادھو پرگیا سنگھ ٹھاکر کو کانگریس کے سینئر لیڈر ڈگ وجئے سنگھ کے خلاف اپنا امیدوار بناکر ایک نئی شروعات کی ہے۔
مذکورہ امیدواری وزیر اعظم نریندر مودی کے مسلسل پیش کئے جانے والے ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے حوالے کو برعکس اور ان کی پارٹی کے دہشت گردی کے خلاف نظم ونسق کی صورت حال پر قابو پانے کے دعوی کو کھوکھلا ثابت کرنے والا ہے۔
سال2008کے مالیگاؤں بم دھماکوں کے کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر این ائی اے کی خصوصی عدالت نے 2018اکٹوبر کو پرگیا سنگھ کے خلاف یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد کئے تھے‘ مذکورہ بم دھماکہ میں چھ لوگوں کی موت ہوگئی تھی جبکہ ایک سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے۔
این ائی نے عدالت میں دہشت گردی کے الزامات ہٹانے کی درخواست پیش کرنے کے بعد یہ فیصلہ عدالت نے سنایاتھا۔بی جے پی کو یہ بات یادرکھنا چاہئے جس میں اس نے پاکستان سے کہاتھا کہ دہشت گردی کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور ’’ اچھا دہشت گرد‘‘ مخالف’’ برا دہشت گرد‘‘ جیسے کوئی چیز نہیں رہتی۔
پرگیا جیسی شدت پسند کو آگے لانا ‘ ہوسکتا ہے کہ قانونی طو رپر وہ اب تک انہیں دہشت گردی کے الزامات میں سزا ء نہیں ملی ہے۔
مگرالیکشن کمیشن کسی کے خلاف بھی کاروائی کرسکتا ہے جیسا مایاوتی کے خلاف اس نے کیاہے‘ کیونکہ مایاوتی نے مسلمانوں ووٹوں کی اپیل کی تھی ‘ جو مذہبی گروپ کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے والی بات نہیں تھی ۔
ساری دنیا میں مذہبی گروپس سے ووٹوں کے لئے اپیل کرنا ایک عام بات ہے‘ او رمایاوتی غیر منصفانہ طریقے سے نشانہ بنانا کا احساس حق بجانب ہوجاتا ہے۔جہا ں تک سنگھ کا معاملہ ہے وہ ایک اہم سیاسی کھلاڑی ہیں اور بم پھینکنے کے عمل میں ان کے ساتھ کوئی بھی شامل نہیں ہے۔
تاہم 26/11کے بم دھماکہ اور باٹلہ ہاوز انکاونٹر کی سازشوں سے ان کے غیر رسمی تار جڑے ہوئے ہیں‘جس سے طبقہ واری لفٹ نظریہ کو اجاگر کرتا ہے۔