ایک گوالے کے پاس دو بھینسیں تھیں۔ وہ ان کا دودھ بیچ کر روزی کماتا تھا۔ ایک دن اسے اس کا ایک دوست ملا، جس کے پاس دس بھینسیں تھیں‘ اور وہ خاصا امیر ہوچکا تھا۔ اس نے گوالے کو مشورہ دیا کہ تم دودھ میں پانی ملاکر فروخت کیا کرو، اس طرح جلد امیر ہوجاؤ گے۔ گوالے نے سوچا کہ آج تک میں نے اصلی دودھ بیچا ہے لہذا میں دودھ میں پانی ملا کر بیچوں گا تو کسی کو پتہ نہ چلے گا اور میرے پاس زیادہ پیسے آجائیں گے، یہ سوچ کر اس نے دودھ میں پانی ملاکر فروخت کرنا شروع کردیا۔ جب اس کے پاس زیادہ پیسے آنے لگے تو اس کا لالچ بڑھ گیا اور وہ دودھ میں زیادہ پانی ملانے لگا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے پاس بہت سارا روپیہ آگیا تو اس نے چھ بھینسیں خرید لیں۔ اب وہ نہر پار کرکے دوسرے علاقوں میں دودھ بیچنے لگا۔ ایک دن سفر کے دوران اس کے پاس ہزاروں روپئے تھے، اس کا ارادہ بیٹی کیلئے زیور خریدنے کا تھا۔ کشتی میں بیٹھے بیٹھے اسے پانی میں نہ جانے کیا نظر آیا کہ وہ اسے دیکھنے کیلئے جھکا تو گوالہ زور زور سے رونے اور چیخنے لگا کہ میری محنت کی کمائی پانی میں گر گئی، کوئی میری مدد کرو۔ اسی کشتی میں ایک بزرگ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے جب گوالے کی بات سنی تو کہنے لگے’’ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا ۔‘‘’’ کیا مطلب۔‘‘ گوالے نے سوال کیا۔’’ مطلب یہ کہ تم دودھ میں پانی ملاتے تھے، پانی نے اپنا حصہ لے لیا اور دودھ کا پیسہ تم وصول کرچکے ہو۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔یہ سن کر گوالے نے جواب دیا۔ ’’ آپ درست کہہ رہے ہیں‘ میرا ساتھی دودھ میں پانی ملا کر زیادہ پیسے کماتا تھا، اس کی باتوں میں آکر میں نے سوچا کہ مجھے بھی ایسا کرنا چاہئے، اور میں نے لالچ میں آکر یہ سب کیا، ورنہ میں تو ایمانداری سے دودھ بیچا کرتا تھا مگر لالچ نے مجھے اندھا کردیا تھا اسی لئے مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوگیا، لیکن میں آج سے یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ایسا نہ کروں گا۔‘‘