ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
انسان میں رب کائنات نے بعض فطری کمزوریاں بھی ودیعت فرمائی ہیں، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مخدوم کائنات خواہشات نفسانی و شہوانی کے دلدل میں دھنس کر اتنا کمزور و نحیف ہو جاتا ہے کہ وہ خالق کو چھوڑکر خادم کا غلام اور طلبگار بن جاتا ہے۔ انسان کی اسی اصولی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ موسمی تبدیلیوں کو بھی برداشت نہیں کرسکتا، جیسا کہ جاریہ موسم گرما میں درجہ حرارت کے بڑھ جانے اور شدید گرمی کی لہر اور لو لگنے سے کئی لوگ اس دار فانی سے کوچ کر رہے ہیں۔ اگر ہم موسم گرما کی شدت کی حقیقت کا قرآن پاک اور حدیث پاک کی روشنی میں جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس شدید گرمی کا جہنم کی گرمی سے کوئی تقابل نہیں ہے، بلکہ یہ دنیوی گرمی تو آتش جہنم کا ایک ادنی سا حصہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہاری آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، جسے رب کائنات نے انسان کے لئے قابل استعمال بنانے کے لئے سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھایا ہے‘‘۔ (شیخین، مؤطا امام مالک، تفسیر ابن کثیر)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن سب سے ہلکا عذاب اسے ہوگا، جسے جہنم کی آگ کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے، جن سے اس کا دماغ اس طرح کھولتا ہوگا جس طرح ہانڈی کھولتی ہے، اس کے باوجود وہ یہ سمجھے گا کہ دوزخیوں میں سے اور کسی کو اس سے زیادہ سخت عذاب نہیں ہے، حالانکہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا‘‘۔ (متفق علیہ)
آتش جہنم کی گرمی و تپش کے بارے میں رب کائنات فرماتا ہے ’’فرمائیے دوزخ کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے، کاش! وہ کچھ سمجھتے‘‘ (سورۃ التوبہ۔۸۱) یعنی دنیا کی گرمی جو جہنم کی آگ کا ایک ادنی سا حصہ ہے، اس کے باوجود انسان اسے برداشت نہیں کرپا رہا ہے اور اس سے بچنے کے لئے مختلف احتیاطی تدابیر و اقدامات اختیار کرتا ہے، لیکن وہ آتش جہنم کی گرمی سے بچنے کے لئے کوئی کوشش و سعی نہیں کرتا۔ جس کی ایک چنگاری اگر مشرق میں ہو تو اس کی حرات مغرب تک پہنچ جائے۔
آج ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے، جس کی پیچیدگیوں سے بچنے اور جسم کے درجہ حرارت کو مناسب و موزوں رکھنے کے لئے انسان مختلف ترکیبیں اختیار کرتا ہے، جیسے گرما کی چھٹیاں گزارنے کے لئے نقل مکانی کرنا، یعنی سرد مقامات کا رخ کرنا وغیرہ۔ لیکن انسان کو جہنم کی آگ سے بچنے کی کوئی فکر نہیں، جس سے باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود رہیں گے۔ رب کائنات ارشاد فرماتا ہے ’’جب بھی ارادہ کریں گے اس سے نکلنے کا فرط رنج و الم کے باعث تو انھیں لوٹا دیا جائے گا اس میں اور (کہا جائے گا) کہ چکھو جلتی ہوئی آگ کا عذاب‘‘۔ (سورۃ الحج۔۲۲)
انسان دنیا کی چند روزہ گرمی سے بچنے، اپنی صحت کو گرمیوں کے موسم میں برقرار رکھنے اور پیاس کی شدت کو بجھانے کے لئے وافر مقدار میں پانی اور ٹھنڈے مشروبات کا استعمال کرتا ہے، لیکن آج کا انسان جہنم کی اس ہولناکیوں سے کتنا بے فکر نظر آرہا ہے، جہاں اسے پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ ارشاد ربانی ہے ’’پھر پینا پڑے گا اس پر کھولتا پانی‘‘۔ (سورۃ الواقعہ۔۵۴)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا جو (جسم میں) سرایت کرے گا، یہاں تک کہ دوزخی کے پیٹ میں پہنچ جائے گا اور جو کچھ اس کے پیٹ میں ہوگا اسے کاٹ ڈالے گا۔ (پھر یہ گرم پانی سرایت کرتا ہوا) دونوں قدموں سے باہر آجائے گا اور (ابھی) وہ گرم ہی ہوگا اور اسے پھر پہلی حالت میں لوٹا دیا جائے گا، تاکہ یہ عمل دوبارہ دہرایا جاسکے‘‘۔ (ترمذی شریف)
آج انسان موقتی گرم لو سے بچنے کے لئے پنکھے، ایرکولر اور ایرکنڈیشن کا استعمال کرتا ہے، تاکہ اسے کچھ راحت مل جائے، لیکن وہ جہنم کی اس دائمی آگ کی گرمی سے بچنے کے لئے کوئی عمل نہیں کرتا، جس سے بچنا انسان کے بس کی بات نہ ہوگی۔ خالق کونین ارشاد فرماتا ہے ’’بھیجا جائے گا تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں، پھر تم اپنا بچاؤ بھی نہ کرسکو گے‘‘۔ (سورۃ الرحمن۔۳۵)
آج کے ترقی یافتہ دور کے انسان کی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں زیادہ تر دنیا کے حصول تک محدود و مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں، جب کہ انسان کو آخرت کے لئے فکرمند رہنا اور وہاں کے لئے تیاری کرنا ہے۔ چوں کہ عقلمند وہی شخص ہوتا ہے، جو دور اندیش ہو اور اپنے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لئے کوشاں ہو اور جو فانی نعمتوں کے حصول کے لئے دائمی نعمتوں سے محروم ہو جائے اسے کوئی دانا نہیں کہتا۔ لہذا جہاں ہم دنیاوی گرمی سے بچنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں، وہیں ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ جہنم اور اس کی گرمی سے بچنے کے لئے بھی سعی و کوشش کریں۔