تکثیرات اربعہ کا چوتھا مجاہدہ ’’صبر‘‘ ہے۔ تزکیہ نفس کے سلسلے میں اگر ہم خفت و شدت کے اعتبار سے مجاہدات کی فہرست بنائیں تو میرا خیال ہے کہ سب سے شدید اور سخت مجاہدہ ’’صبر‘‘ ہی رہے گا۔ مجاہدہ کو سمجھنے سے پہلے ایک بنیادی حقیقت کو سمجھ لیجئے، تاکہ صبر اور اس کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ انسان کو زندگی کے جن مراحل اور عالَموں سے گزارا جاتا ہے، ان میں رنج و راحت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے تین عالم پیدا فرمائے ہیں۔ ایک تو وہ عالم ہے، جہاں راحت ہی راحت ہے، رنج و غم کا نام و نشان نہیں، اس عالم کا نام ’’جنت‘‘ ہے۔ جنت میں کسی بھی قسم کے رنج و غم اور فکر و پریشانی کا گزر نہیں۔ جنت کے بارے میں واضح طورپر بتادیا گیا ہے کہ ’’اس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے اور یہ متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے‘‘ (سورۂ آل عمران۔۱۳۳) اس کی نعمتوں اور آسائشوں کے بارے میں قرآن کریم میں جگہ جگہ تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پرہیزگاروں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی کیفیت یہ ہوگی کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی، جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہوگی، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی، اس میں ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے لئے ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہوگی‘‘ (سورۂ محمد۔۱۵) ایک جگہ فرمایا: ’’اہل جنت سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں، تمہارے لئے خوف ہے نہ پریشانی‘‘۔ (سورۂ اعراف۔۴۹)
قرآن و حدیث میں جنت کی بے شمار نعمتوں کا تذکرہ ہے، جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جنت، رنج و الم اور خوف و حزن سے بالکل پاک جگہ ہوگی، البتہ ایک نکتہ کی بات یہ بھی سمجھ لیجئے کہ جنت میں اہل جنت کو ’’مغفرت‘‘ کی بشارت دی گئی ہے۔ مغفرت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ دنیا میں جو کوتاہیاں ان سے ہوئی تھیں اور جو گناہ ان سے سرزد ہوئے تھے، ان سب کو نہ صرف معاف کردیا جائے گا، بلکہ ان کا ذکر تک جنت میں کبھی ان کے سامنے نہ آئے گا۔ ان سب پر ہمیشہ کے لئے پردہ ڈال دیا جائے گا اور ان کوتاہیوں، غلطیوں، لغزشوں اور گناہوں کا خیال تک ان کے ذہن سے محو کردیا جائے گا، تاکہ وہ جنت میں شرمندہ اور رنجیدہ نہ ہوں۔ غرض جنت ایسی جگہ ہوگی، جہاں ہر طرف راحت ہی راحت ہوگی، یعنی یہ عالمِ راحت ہے۔
اس کے برخلاف دوسرا عالم اللہ تعالیٰ نے ایسا پیدا فرمایا ہے، جہاں صرف تکلیف ہی تکلیف ہوگی، رنج و غم ہی رنج و غم ہوگا، ایک لمحہ کے لئے بھی چین و سکون نصیب نہ ہوگا۔ یہ ایک مستقل عذاب کا عالم ہوگا اور اس کا نام ’’دوزخ‘‘ ہے۔ اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ’’یہ بُرا ٹھکانہ ہے‘‘ (سورۂ رعد۔۱۸) ’’بدترین جائے قرار ہے‘‘ (سورۂ ابراہیم۔۲۹) ’’ہم نے کافروں کی ضیافت کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے‘‘ (سورۂ کہف۔۱۰۲) ’’اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے‘‘ (سورۂ فرقان۔۶۵) غرض یہ وہ عالم ہے، جہاں رنج ہی رنج ہے، تکلیف ہی تکلیف ہے، راحت و آسائش کا یہاں کوئی تصور ہی نہیں اور یہ ’’کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے‘‘۔ (سورۂ بقرہ۔۲۴)
تیسرا عالم یہ ہے، جس میں اس وقت ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، یہاں کوئی ایسا شخص نہیں، جس کو راحت ہی راحت میسر ہو، آرام ہی آرام ہو، کوئی فکر و پریشانی نہ ہو، کوئی رنج و غم نہ ہو اور یہاں ایسا بھی کوئی شخص نہیں، جس کو صرف رنج و غم ہی رنج و غم ہو، پریشانی ہی پریشانی ہو اور کوئی راحت و آرام نہ ہو۔ یہاں رنج و غم بھی ہے اور راحت و آرام بھی، کبھی سکون ہے، کبھی بے چینی، کبھی راحت ہے، کبھی تکلیف ہے، کیونکہ یہ عالم ’’عالمِ امتحان‘‘ اور ’’عالمِ آزمائش‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم تمھیں ضرور خوف و خطر، فاقہ کشی، جان مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت آجائے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ انھیں خوش خبری دے دیں، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ فگن ہوگی اور یہی لوگ راست رو ہیں‘‘۔ (سورۂ بقرہ۔۱۵۵تا۱۵۷)
یعنی یہ تیسرا عالم تکلیف و راحت کا ملا جلا عالم ہے۔ یہ عالم ’’عالمِ تعلقات‘‘ بھی ہے، یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی رہتی ہے۔ روزانہ رات دن کتنی ہی ایسی باتیں ہوتی ہیں، جو ہمارے نفس پر شاق گزرتی ہیں اور ہمیں سخت یا قدرے ناگوار ہوتی ہیں۔ کبھی اپنی یا کسی عزیز اور دوست کی بیماری سے پریشانی رہتی ہے، کبھی کسی کی موت کا صدمہ ہے اور کبھی مالی نقصانات کا سامنا ہوتا ہے۔ اس طرح شب و روز بے شمار باتیں ہوتی ہیں، جو ہمارے ذہنی اور قلبی سکون و عافیت کو درہم برہم کردیتی ہیں۔ کبھی فرائض منصبی میں رکاوٹیں آجاتی ہیں، کبھی خود اپنی ذات میں وسوسے پریشان کردیتے ہیں، غرض انسان ذہنی انتشار کا شکار رہتا ہے۔ یہ تمام حالات بڑے صبر آزما ہوتے ہیں، اپنے آپ کو بڑا سنبھالنا پڑتا ہے، صبر و تحمل سے کام لینا ہوتا ہے، غیر معمولی قوتِ برداشت سے ان کٹھن حالات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے، لیکن ان پریشان کن حالات کے ساتھ راحت و سکون اور مسرت و شادمانی کے لمحات بھی میسر آتے رہتے ہیں۔ غرض یہ دنیا ہے، یہ عالم رنج و راحت کا ملا جلا عالم ہے۔ کبھی گھروں میں شہنائی بجتی ہے اور کبھی جنازے اُٹھتے ہیں، کبھی چہرے پر مسرت موجزن رہتی ہے اور کبھی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہیں۔ یہاں ناگوار حالات میں کامیابی اور نجات کا راستہ صرف صبر و تحمل کا راستہ ہے اور صبر ہی سے ان حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ (اقتباس)