دو تلگو ریاستوں کے مسائل

جس کی ہے صنعت گری اچھی تو ہے
سامنے جو ہے پری اچھی تو ہے
دو تلگو ریاستوں کے مسائل
ملک کی پہلی دو لسانی ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ میں رونما ہونے والے مسائل کی یکسوئی کیلئے دونوں جانب کے قائدین نے بہتر قدم اٹھایا ہے۔ گورنر ای ایس ایل نرسمہن کی نگرانی میں دونوں ریاستوں کے نمائندوں نے باہمی دیرینہ مسائل کی جانب توجہ دے کر ان پر غوروخوض کرتے ہوئے معاملہ فہمی کے ساتھ حل نکالنے پر زور دیا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر عدالتوں سے رجوع ہونا ایک بڑا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ دونوں ریاستوں کے نمائندوں کے احساس کے مطابق خوشگوار انداز میں مسائل حل کرلئے جاتے ہیں تو یہ اپنی نوعیت کی بہتر شروعات ہوگی۔ اس بات چیت میں آندھراپردیش سے وزیرفینانس وائی رام کرشنوڈو، وزیر لیبر کے انچند نائیڈو اور سرکاری وہپ کے سرینواسلو کے علاوہ عہدیدار موجود تھے۔ تلنگانہ کی نمائندگی وزیرآبپاشی ٹی ہریش راؤ، وزیر برقی جی جگدیش ریڈی، سرکاری مشیر جی ویویکانند نے کی۔ گورنر نے اس سلسلہ میں اہم رول ادا کیا ہے۔ دو اور لو کی پالیسی سے باہمی اختلافات کو فوری ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ 9 فبروری کو ہونے و الی آئندہ ملاقات میں دونوں جانب سے یہی کوشش کی جانی چاہئے کہ حل طلب مسائل پر توجہ دے کر اے پی ری آرگنائزیشن ایکٹ کے 9 ویں اور دسویں شیڈول میں دی گئی ہدایات کو بروئے کار لایا جائے۔ برقی اور پانی کی تقسیم دونوں کیلئے اہم اور نازک مسئلہ ہے۔ اس کی تقسیم میں کسی بھی ریاست کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے۔ ادارہ جات کی تقسیم کیلئے بھی ای آرگنائزیشن ایکٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے تو ملازمین اور اداروں کی تقسیم کا مرحلہ بھی بحسن و خوبی انجام پا سکتا ہے۔ اب جبکہ آندھراپردیش کے اسٹیٹ لیجسیلچر کی حیدرآباد سے اس کے عبوری دارالحکومت ویلگاپوڈی منتقلی کے انتظامات ہوچکے ہیں تو اس ادارہ کے ساتھ کام کرنے والے تلنگانہ ملازمین کی قسمت معلق دکھائی دے رہی ہے۔ چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کے منصوبہ کے مطابق آندھراپردیش کی اسمبلی کیلئے نئی عمارت تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور عمارت کا 10 فبروری کو وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آئے گا۔ آندھراپردیش کے وزراء نے حیدرآباد میں اپنا آخری پروگرام 26 جنوری کو منعقد کیا تھا جب انہوں نے اسمبلی کے احاطہ میں قومی پرچم لہرایا تھا۔ اب آندھراپردیش کا وزارتی گروپ اپنی ریاست کی نئی اسمبلی عمارت منتقل ہورہا ہے تو اس سے وابستہ تلنگانہ ملازمین کے بارے میں بہت جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ آندھراپردیش کے اسمبلی سکریٹریٹ کو پہلے ہی سے منتقل کرنے کی تیاریاں ہوچکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حیدرآباد سے ویلگاپڈی کو تمام عملہ بھی منتقل ہورہا ہے۔ تاہم اس تبدیلی کے درمیان تلنگانہ ملازمین کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے جو اے پی اسٹیٹ لیجسلیچر کے ساتھ کام کررہے ہیں جبکہ دونوں ریاستوں کے درمیان عملہ کی تقسیم کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ زائد از 123 تلنگانہ ملازمین کی خدمات کو اے پی لیجسلیچر سکریٹریٹ کے تفویض کیا گیا تھا۔ اب ان کی بازآباد کاری ایک مسئلہ بن رہی ہے۔ دونوں ریاستوں کے نمائندوں کواس مسئلہ پر ہمدردانہ غور کے ساتھ تمام مسائل کی یکسوئی کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہاں گورنر نرسمہن کے رول کو کافی اہمیت حاصل ہوگی۔ گورنر کو اس سلسلہ میں غیرجانبدارانہ رول ادا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ ان سے آندھراپردیش کے چیف منسٹر کی شکایت ہیکہ گورنر کا جھکاؤ تلنگانہ کی جانب ہے۔ اول تو چندرا بابو نائیڈو کو اس خیال سے دستبردار ہونا ضروری ہے کیونکہ گورنر کے معاملہ میں تحفظ ذہنی رکھنا تمام مسائل کی یکسوئی کی کوششوں کو رائیگاں کرسکتا ہے۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ کے درمیان ہائیکورٹ کی تقسیم کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو ہر سوال کو ٹالتے جارہے ہیں۔ حال ہی میں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے ہائیکورٹ کی تقسیم کے مسئلہ پر چندرا بابو نائیڈو سے استفسار کیا تھا مگر نائیڈو نے اس کا راست جواب دینے سے گریز کیا۔ نئی ریاست کے قیام کے بعد سے علحدہ ہائیکورٹ کیلئے وکلاء اور ججس کے مطالبہ اور احتجاج میں اضافہ ہی ہورہا ہے کیونکہ اس وقت ہائیکورٹ اور تحت کی عدالتوں میں کام کرنے والے زیادہ تر ججس کا تعلق آندھراپردیش سے ہے۔ اس سے تلنگانہ کے وکلاء کی عدم اطمینانی میں اضافہ ہونا بھی غیرفطری نہیں ہے۔ مسئلہ کی جلد از جلد یکسوئی کو یقینی بنانا دونوں حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔