دونوں شہروں کے مسائل

انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹہر جاو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
دونوں شہروں کے مسائل
دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ کے ساتھ پینے کے پانی کی سربراہی کا مسئلہ بھی دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے ۔ علحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کے تقریبا دو ماہ پورے ہونے کو آرہے ہیں ۔ مگر اس شہر کے عوام کے مسائل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے دونوں شہروں کو سربراہی آب کیلئے مشہور ذخائر عثمان ساگر اور حمایت ساگر کی سطح میں تشویشناک کمی آئی ہے۔ کرشنا ندی سے پانی لانے کے پراجکٹ میں جزوی کامیابی کے بعد بھی شہری پانی کیلئے پریشان ہیں۔ دونوں ذخائر آب سے شہر کی ایک تہائی آبادی کو پانی کی سربراہی یقینی بنائی جاسکتی ہے مگر بارش کی کمی اور تالابوں کے خشک ہوجانے سے آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین رخ اختیار کر جانے کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ۔ دونوں ریاستوں کا 10 سال تک مشترکہ دارالحکومت رہنے و الے شہر حیدرآباد کو جب شدید برقی کی قلت اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ در پیش ہوتو مانسون کے ناکامی سے مزید حالات ابتر ہوں گے ۔ حال ہی میں تلنگانہ کے نئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے فخریہ اعلان کیاتھا کہ گریٹر حیدرآباد کی آبادی ایک کروڑ سے تجاویز کر جائے گی اور دو کڑوں تک آبادی والے شہر کی حیثیت سے حیدرآباد کو عالمی سطح کا شہر بنایا جائے گا ۔ غور طلب سچائی یہ ہے کہ برقی کی شدید کٹوتی اور پانی کی قلت سے دوچار حیدرآباد کے ایک کروڑ عوام حکومت کی نا اہلیوں کا شکار ہورہے ہیں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن میں رہنے والے عوام کے صبر کا امتحان لینے والی حکومت کو حالات کے مزید ابتر ہونے تک خاموش نہیں بیٹھے رہنا چاہئے ۔گریٹر حیدرآباد و میونسپل کارپوریشن کے علاقہ کو 625 مربع کیلو میٹر کے احاطہ پر مشتمل بنایا گیا ہے جہاں کی آبادی میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے نقل مکانی کرنے والے افراد کی مقدار بھی بڑھ گئی ہے ۔ دوسری ریاستوں سے آنے والے یہ شہری مقامی طور پر موجود مسائل میں مزید اضافہ کا باعث بھی بن سکتے ہیں اس کیلئے حکومت کو پہلے ہی سے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت تھی مگر اب تلنگانہ سے پہلے کی صورتحال اور مابعد تلنگانہ کی کیفیت میں کوئی فرق نہیں پایا جارہا ہے بلکہ مابعد تلنگانہ جو سہولتیں اور راحتوں کی امید کی گئی تھی اس کا دور دور تک کوئی اشارہ بھی نہیں مل رہا ہے ۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اگر حکمراں پارٹی بیوریو کریٹس ہنگامی منصوبے بنانے میں ناکام رہیں تو صورتحال بے قابو ہوگی ۔ دونوں شہروں کے کئی علاقوں میں پانی کی محدود سربراہی یا چار و پانچ دن میں ایک مرتبہ پانی کی سربراہی کی شکایت کی جارہی ہے اگر چیکہ محکمہ آبرسانی کی جانب سے ایک دن کے وقفہ سے پانی کی سربراہی کا دعوی کیا جارہا ہے مگر شہریوں کو یہ پانی بھی ناکافی ثابت ہورہا ہے ۔ جن علاقوں میں بھی سربراہی آب کا دن ہوتا ہے وہاں کم پریشد اور کم وقت تک ہی پانی سربراہ کیا جاتا ہے ۔ دونوں شہروں کیلئے ذخائر آب کو موثر بنانا سنگور پراجکٹ مانجرا وغیرہ کی سطح آب کو بہتر بنانا، آبگیر علاقوں کو ترقی دینے کے ٹھوس منصوبے بنانے پر توجہ دینی چاہئے ۔ محکمہ آبراسانی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں شہروں کے عوام کو یہاں پانی سربراہ کرے ۔ اس محکمہ کو سکندرآباد کنٹومنٹ بورڈ ڈیفنس اداروں ،ریلوے صنعتی یونٹوں اور دیگر ادارہ جات کو پانی کی سربراہی کی ذمہ داری دی گئی ہے مگر آبادی والے علاقوں میں پانی کم سربراہ کر کے دیگر علاقوں میں سربراہی آب کو موثر بنانے کی بھی شکایات سے شہریوں میں امتیازی سلوک کی شکایت پیدا ہورہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دونوں شہروں کیلئے شاندار ذخائر آب موجود ہیں۔ عثمان ساگر حمایت ساگر کے علاوہ منجیرہ ،سنگور کے بعد دریائے کرشنا ،اکمپلی بیارج سے پانی سربراہ کیا جاتا ہے ۔ ان پانچ اہم ذخائر آب کی گنجائش 39.73ٹی ایم سی ہے اور ان ذخائر میں سے روزانہ کی اساس پر جو پانی سربراہ ہوتا ہے وہ عثمان ساگر سے 15 ملین گیلن، حمایت ساگر سے 25 ملین گیلن منجیرہ سے 45 ملین گیلن،سنگور سے 75 ملین گیلن کرشنا مرحلہ ایک اور دوم ) سے 180 ملین گیلن پانی سربراہ ہورہا ہے اس کے علاوہ زیر زمین آبی وسائل سے 27 ملین گیلن پانی سربراہ کیا جاتا ہے جبکہ اصل میں دونوں شہروں کو روزانہ 300ملین گیلن پانی سربراہ ہورہا ہے جبکہ طلب اس سے دوگنا یا سہ گنا زیادہ ہے ۔ محکمہ آبرسانی نے پانی کی سربراہی کو موثر بنانے کیلئے کرشنا پراجکٹ مرحلہ دوم اور گوداوری مرحلہ اول کے لئے 1730 کروڑ روپئے کی ضرورت ظاہر کی ہے اس کیلئے ریاستی حکومت کو اپنے بجٹ 2014-15 میں گنجائش فراہم کرنی ہوگی ۔ گوداوری پینے کے پانی کی سربراہی پراجکٹ مرحلہ اول کا 2007 میں آغاز ہوا تھا لیکن بجٹ کی کمی سے سست رفتاری کا شکار ہوگیا ہے ۔ اس پراجکٹ کا مقصد گریٹر حیدرآباد کو روزانہ 172ملین گیالن پانی سربراہی کو یقینی بنانا تھا لیکن اس پر اجکٹ کی شروعات کے بعد سے ہی اسے مالیاتی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور ریاستی حکومت نے ابھی تک 1000 کروڑ روپئے کی مالیاتی امداد حاصل کرنے کیلئے ہڈ گو میں جوابی ضمانت داخل نہیں کی ہے ۔ تلنگانہ کی نئی حکومت کو مستقبل کی پریشانیوں سے بچنے کیلئے موجودہ طور پر ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے سردست فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مالیاتی رکاوٹوں سے دوچار پراجکٹس میں مزید تاخیر نہ ہوسکے ۔
ریل ۔بس تصادم افسوسناک سانحہ
ملک میں جب کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو نظم و نسق اور متعلقہ محکمے کے آفیسرس جاگ جاتے ہیں اور کچھ دکھائی دینے والی کارروائی کرتے ہوئے خاطیوں کو سزا یا جرمانے سے انتباہ دیا جاتا ہے گزشدتہ روز تلنگانہ کے ضلع میدک میں ماسائی پیٹ ریل۔ بس تصادم سانحہ میں اسکولی بچوں سمیت 20 افراد کی قیمتی جانیں ضائع ہونے کے بعد سرکاری مشنری بیدار ہوئی ۔ ٹرانسپورٹ اتھاریٹیز نے باقاعدہ اصولوں اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والی 17 بسوں کو ضبط کرلیا ۔ ضلع میدک میں پیش آیا ریلوے کراسنگ بس سانحہ کو واضح طور پر بس ڈرائیور کی غلطی قرار دیا جارہا ہے ۔ حادثہ کے وقت ڈرائیور کو اپنے سیل فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا گیا یا اس کے کان میں لگے ہیڈ فونس پر وہ موسیقی سن رہا تھا جب بس ریلوے پٹری کے قریب پہونچی تو اسے ٹرین کے تیزی سے آنے کا علم ہوا بریک لگانے تک دیر ہوچکی تھی اور اس ایک غلطی سے کئی معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔ ڈرائیونگ کے وقت سیل فون پر بات چیت یا گانے سننے کی عادت موٹر رانوں کو جان لیوا حادثات سے دوچار کررہی ہے ۔ محکمہ ٹریفک پولیس ،محکمہ ٹرانسپورٹ کے علاوہ کئی سماجی تنظیموں نے موٹر رانوں میں بیداری پیدا کرنے کی مہم چلائی ہے ۔ انسانی غلطی سے ہونے والے حادثوں پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے کیوں کہ سفر اور منزل تک پہونچنے کا فاصلہ نازک ہوتا ہے ۔ بغیر ادمی والے لیول ریلوے کراسنگ پر اس طرح کے حادثے رکونے کیلئے وزارت ریلوے نے کئی انتظامات کرنے کا ادعا کیا ہے ۔ ملک کے30 ہزار سے زائد ریلوے کراسنگ گیٹس پر آدمیوں کو تعینات کرنے کے علاوہ دیگر انتظامات کا بھی ادعا کیا جارہا ہے اس کے باوجود کئی ریلوے کراسنگ ایسے ہیں جہاں نگرانی رکھنا مشکل ہے ایسے میں ریلوے حکام موٹر رانوں کو بھی اپنی جان و مال کی از خود حفاظت کرنے کا مشورہ دیئے ہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہر ایک کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ریلوے کراسنگ پر اس سے قبل کئی حادثے ہوئے اور کئی حادثوں کو حاضر دماغی سے روکا جاسکا ہے ۔ بس ڈرائیورس کی لاپرواہی کی وجہ سے ہونے والی اموات سے ہر ایک کو صدمہ ہوتا ہے مسائی پیٹ حادثہ میں مرنے والے بچوں کے والدین کے غم و صدمہ میں ہم تمام برابر کے شریک ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ متعلقہ متاثرین کی بھر پور امداد کی جائے اور زخمیوں کا بہتر سے بہتر علاج کیا جائے ۔ افسوس اس بات کا ظاہر کیا جارہا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے مقام حادثہ پر پہنچ کر غمزہ خاندانوں سے اظہار تعزیت نہیں کیا ۔ اس طرح کے سانحہ کی گھڑی میں حکمراں کو اپنی غمزدہ عوام کے پاس ہونے سے ایک وقتی سکون اور ہمت ملتی ہے مگر تلنگانہ کی نئی قیادت عوام کی ہمدردی کے بجائے غم و غصہ سے دوچار ہوئی ہے ۔