زندگی میں ایک مرتبہ خون کا عطیہ دینے والوں کی تعداد بھی قابل نظر انداز ۔ عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت
حیدرآباد ۔ 24 ۔ جون : دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام واحد مذہب ہے جس نے انسانیت ، خدمت خلق ، مریضوں کی عیادت ، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ، غریبوں محتاجوں ، مجبوروں ، کمزوروں ، بے بسوں ، بے کسوں کی مدد ، یتیموں و یسیروں کے ساتھ شفقت ، محبت و مروت سے پیش آنے اور ان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک روا رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ضرورت مندوں کی مدد مریضوں کی دیکھ بھال اور ان کی عیادت کے لیے فوری پہنچ جاتے ہیں ۔ انسانیت کی بقاء کے لیے ان کے قدم سب سے پہلے آگے بڑھتے ہیں ۔ ہمارے شہر میں بھی کچھ ایسی تنظیمیں اور ادارے ہیں جو کسی نہ کسی طرح مصیبت زدہ انسانوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں ۔ ان میں بعض خون کی کمی کے مختلف عارضوں میں مبتلا مریضوں کی مدد کے لیے خون کے عطیہ کیمپس کا اہتمام کرتے ہیں لیکن ان تنظیموں یا اداروں کی مالی حالت اس قابل نہیں کہ وہ اپنے طور پر بلڈ بنکس قائم کریں جب کہ ہنگامی حالات میں دوسرے بلڈ بینکس اور ہاسپٹل سے مربوط بلڈ بینکس سے خون کی خریداری کرنی پڑتی ہے ۔ راقم الحروف نے دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں کام کررہے بلڈ بینکس کا تفصیلی جائزہ لیا جس پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ دونوں شہروں میں تقریبا 80 بلڈ بینکس ہیں جہاں ضرورت مند مریضوں کو خون فروخت کیا جاتا ہے اور ایک یونٹ خون کے پیاکٹ کی قیمت 750 روپئے سے لے کر 2000 تک ادا کرنی پڑتی ہے ۔ ان میں سے بعض بلڈ بینکس جو خیراتی ادارے چلاتے ہیں وہ غریب مریضوں اور سفید راشن کارڈ رکھنے والوں کو مفت میں خون فراہم کرتے ہیں تاکہ ان مریضوں کی جان بچائی جاسکے جنہیں خون کی اشد ضرورت ہو اگرچہ دونوں شہروں میں تقریباً 80 بلڈ بینکس ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم زیر انتظامیہ ہاسپٹلوں ، نرسنگ ہومس ، اداروں اور تنظیموں کی جانب سے چلائے جانے والے بلڈ بینکس کی زیادہ سے زیادہ تعداد صرف 6 ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کی نصف سے زیادہ آبادی مسلم ہونے کے باوجود بلڈ بینکس چلانے کے معاملے میں مسلم ادارے بہت پیچھے ہیں اور یہاں مسلم اداروں کے تحت چلائے جانے والے بلڈ بینکس صرف 4-8 فیصد ہے جب کہ ہمارے شہر کو جس طرح شوگر کے مریضوں کا ہندوستانی دارالحکومت کہا جاتا ہے اسی طرح یہاں خون کی کمی کے عارضوں میں مبتلا کافی مریض ہیں ۔ خاص طور پر زچگیوں کے موقع پر خواتین ، حادثات کی صورت میں زخمیوں ، کے علاوہ اپلاسٹک انیما اور تھالاسمیا سے متاثرہ بچوں کو بھی خون کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔ دوسری جانب ہمارے نوجوانوں میں خون کا عطیہ دینے کا بھی رجحان بہت کم پایا جاتا ہے ۔ ہم نے تقریبا دو ہزار افراد سے جب پوچھا کہ انہوں نے آیا زندگی میں کبھی خون کا عطیہ دیا ہے ؟ ان میں سے صرف 15 افراد یعنی 7.5 فیصد ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں ایک مرتبہ خون کا عطیہ دیا تھا ۔ ہماری کچھ ایسے نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ تین چار برسوں سے خون کا عطیہ دے رہے ہیں اور انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ان کے اس عطیہ کو دوسرے انسانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ واضح رہے کہ نائب مفتی جامعہ نظامیہ محمد قاسم صدیقی تسخیر کی قائم کردہ تنظیم ارشاد المسلمین اور فوکس ( فورم فار کلچرل اپ گریڈیشن اینڈ سوشیل سرویس ) گذشتہ 14 برسوں سے آصفیہ کتب خانہ افضل گنج ، حبشی گوڑہ اور عیدگاہ بالامرائی میں عید میلاد النبیؐ کے مبارک و مسعود موقع پر ہر سال خون کے عطیہ کیمپس منعقد کررہے ہیں جس میں کم از کم 1000 تا 1200 مسلم نوجوان خون کا عطیہ دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے شہر میں مہر آرگنائزیشن اور IACR بھی نوجوانوں میں خون کا عطیہ دینے کا شعور بیدار کررہے ہیں ۔ تنظیم ارشاد المسلمین اور فوکس کے مولانا احسن بن محمد الحمومی کے مطابق نہ صرف دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد بلکہ اضلاع میں بھی مسلم اداروں کو بلڈ بینکس قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی مسلم تنظیم یا ادارہ بلڈ بینک قائم کرنے کا ارادہ رکھنا ہے تو فوکس اس کی ممکنہ مدد کے لیے تیار ہے ۔ بلڈ بینک اور خون کے عطیہ کیمپس کے بارے میں تھالا سمیا سکل سیل سوسائٹی چھتہ بازار کے جوائنٹ سکریٹری جناب خواجہ علیم بیگ کے مطابق سوسائٹی کے 2000 سے زیادہ ارکان ہیں جو تھالاسمیا کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور محکمہ جات سے اس سوسائٹی کو خون کا عطیہ دیا جاتا ہے ۔ جس میں کارپوریٹ دفاتر ، بینکس ، محکمہ پولیس ، سیاسی جماعتیں ، تعلیمی ادارے ( کالجس ) وغیرہ شامل ہیں ۔ انہوں نے بھی انسانی بنیادوں پر بلا لحاظ مذہب و ملت خون کی کمی کا شکار بچوں اور بڑوں کی خدمت کے لیے بلڈ بینکس قائم کئے جانے کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ۔ جناب خواجہ علیم بیگ نے بتایا کہ ان کے دو بچے خود تھالاسمیا سے متاثر ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عید میلاد النبیؐ کے مبارک موقع پر تنظیم ارشاد المسلمین اور فوکس جو عطیہ کیمپس منعقد کرتی ہے وہاں سے سارا خون ان کی سوسائٹی کو فراہم کیا جاتا ہے ۔ سوسائٹی کے تحت ہر روز چالیس سے پچاس مریضوں کو خون چڑھایا جاتا ہے ۔ ایک یونٹ خون 450 ایم ایل ، 250 ایم ایل ، 350 ایم ایل یعنی مریض اور عطیہ دینے والے کے وزن اور صحت کے مطابق ہوتا ہے ۔ دوسری طرف نظامیہ طبی کالج کے شعبہ علم الامراض کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر احمد اکبر الدین نے بتایا کہ 6 ماہ میں ایک مرتبہ خون کا عطیہ دیا جاسکتا ہے ۔ جسم میں سرخ جسیموں کی عمر 120 دن ہوتی ہے ۔ جب کہ انسانی جسم میں 70 ہزار ارب خلیے موجود رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر اکبر احمد اکبر الدین نے بھی اس خیال کا اظہار کیا کہ مسلم اداروں کو بلڈ بینکس قائم کرنے اور خون کا عطیہ دینے سے متعلق نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے آگے آنا چاہئے ۔۔